یوکرائنی دارالحکومت میں پولیس کارروائی، دو مظاہرین کی ہلاکت
22 جنوری 2014کییف میں بدھ کے روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں وقوع پذیر ہوئیں۔ پولیس نے گزشتہ دنوں کے مقابلے میں مظاہرین کے ساتھ قدرے سخت رویہ اپنایا۔ پرتشدد جھڑپوں میں جن دو مظاہرین کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے، اُن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُنہیں گولیاں لگی تھیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نومبر سے جاری سیاسی بحران نے اب ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جو اگلے دنوں میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
یوکرائن کے مرکزی اپوزیشن لیڈران نے ہلاکتوں کی براہ راست ذمہ داری صدر وکٹور یانوکووچ اور وزیر داخلہ وتالی ذاخرچینکو پر عائد کی ہے۔ اِسی دوران کییف میں امریکی سفارت خانے نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرائنی حکومت کے بعض اہلکاروں کے ویزے منسوخ کر رہے ہیں کیونکہ یہ افراد پولیس ایکشن کا حصہ خیال کیے جا رہے ہیں۔ اُدھر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مغربی اقوام یوکرائن میں مظاہرین کو اشتعال دے رہی ہیں۔ لاوروف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان ملکوں کے بعض سیاستدان مظاہروں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
بدھ کی سہ پہر مظاہروں کو کچلنے والی خصوصی پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔ بکھرے ہوئے تمام مظاہرین کو آزادی چوک کی جانب دھکیلا گیا۔ اِس دوران پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کی گئی اور اِس باعث مظاہرین نے پلٹ کر بھاگنا شروع کر دیا۔ آج ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے میکولا آزاروف کا کہنا تھا کہ وہ بطور وزیراعظم نہایت ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پولیس کے پاس فائر کرنے والا اسلحہ نہیں تھا لہٰذا ہلاکتوں کی ذمہ داری مظاہرین کی قیادت کرنے والے اپوزیشن لیڈروں پر عائد کی جانی چاہیے۔ دوسری جانب مظاہروں کے کوآرڈینیٹر اولے موسی (Oleh Musiy) نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ مرنے والے دونوں افراد کو ایک جیسے زخم آئے ہیں اور یہ براہ راست فائرنگ کا نتیجہ لگتے ہیں۔
مبصرین بدھ کے روز ہونے والے پولیس ایکشن کو ملکی وزیراعظم میکولا آزاروف (Mykola Azarov) کے گزشتہ دن کے بیان کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ آزاروف نےمنگل کوکہا تھا کہ اگر ملکی افراتفری کا باعث بننے والوں نے خود کو کنٹرول نہ کیا تو حکام نئے قانون کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مظاہرین کو طاقت کے بل پر منشتر کر سکتے ہیں۔ اس نئے متنازعہ قانون کے تحت بڑے مظاہروں پر پابندی کے علاوہ مظاہرین کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب یوکرائنی صدر وکٹور یانووکووچ نے تین مرکزی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔