یوکرائن کا بحران: فوج کی ہمدردیاں منقسم، ماہرین
3 فروری 2014اسی دوران روس نے یوکرائن کی اپوزیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بار بار الٹی میٹم دینے کی اپنی سیاست ترک کر دے۔ یوکرائن کے مسلسل بحران کے باعث اگر صدر وکٹر یانوکووچ نے ملکی فوج کو مظاہرین کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا تو بہت سے ماہرین کے مطابق یہ اس لیے ایک غلط فیصلہ ہو گا کہ اس عوامی احتجاج کے باعث فوج کی ہمدردیاں بھی تقسیم ہو چکی ہیں۔
خبر ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ اپوزیشن بار بار یہ تنبیہ کر رہی ہے کہ یوکرائن کے تنازعے میں فوج مداخلت کرنے ہی والی ہے۔ لیکن صدر یانوکووچ کی طرف سے فوج کو مظاہرین کے خلاف کارروائی کا حکم دیے جانے کا امکان کافی کم ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ تنازعے میں فوج کی ہمدردیاں بھی تقسیم ہو چکی ہیں اور عام فوجیوں اور افسران کی سطح پر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ ان کی غیر مشروط ہمدردیاں حکومت کے ساتھ ہوں گی۔
کییف میں فوجی امور اور ہتھیاروں کے خاتمے سے متعلق تحقیقی مرکز کے ڈائریکٹر ویلنٹائن بادراک کا کہنا ہے کہ یوکرائن کی فوج کا ایک بڑا حصہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو آزاد یوکرائن میں جوان ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق اس نوجوان نسل سے ہے، جو خود کو کییف کے وسط میں ’میدان‘ یا آزادی چوک میں جمع مظاہرین کی خواہشات کے بہت قریب تر محسوس کرتی ہے۔
ویلنٹائن بادراک کے مطابق یوکرائن کی فوج کی اعلیٰ کمان ان جرنیلوں اور دیگر افسران پر مشتمل ہے، جو سوویت یونین کے دور میں جوان ہوئے تھے۔ ان افسران میں نظم وضبط کے حوالے سے ایک خاص طرح کی سوچ پائی جاتی ہے اور وہ کسی بھی طرح کے احکامات پر عمل کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس نچلے درجے کے جونیئر افسران اور عام سپاہیوں کو یہ احساس بھی ہے کہ یوکرائن کو اس وقت کسی طرح کے مالیاتی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے۔
63 سالہ صدر یانوکووچ کے بارے میں اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمرجنسی لگا کر ممکنہ طور پر فوج کو مظاہرین کے خلاف سڑکوں پر لانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ امکانات گزشتہ جمعے کے روز قدرے زیادہ نظر آنے لگے تھے۔ تب فوج کی اعلیٰ قیادت نے صدر یانوکووچ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دو ماہ سے جاری بحران کے خاتمے کے لیے ’فوری اور ٹھوس اقدامات‘ کریں۔
لیکن نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ویلنٹائن بادراک اور دیگر تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر یانوکووچ کے لیے فوج کے کم تر مورال کی وجہ سے ہنگامی حالت کے نفاذ کی کوشش بھی ایک بہت مشکل فیصلہ ہو گا۔ ایسے میں حکومت کے لیے یہ امکان انتہائی کم رہ جاتا ہے کہ وہ فوج کو مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکے۔