یوکرائن میں مثبت تبدیلی آئی ہے، مغربی ممالک
26 مئی 2014جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا ہے کہ یوکرائنی شہریوں کی بڑی تعداد نے اتحاد، آزادی اور جمہوریت کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یورپی یارلیمان کی جرمن رکن باربرا وائلر بطور مبصر انتخابی عمل کی نگرانی کرنے کے لیے یوکرائن میں موجود تھیں۔ ابتدائی نتائج کے فوراً بعد ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ حیرت انگیز نتیجہ ہے۔ انتخابات سے ایک روز قبل یورپی تعاون و سلامتی کی تنظیم کا کوئی بھی مبصر ایسی پیشنگوئی نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
وائلر نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ پیٹرو پوروشینکو صدر بننے کے بعد آئین میں اصلاحات ضرور لائیں گے۔ ان کے بقول وہ یہ کام فوری شروع کر سکتے ہیں اور اس کے بعد واضح ہو جائے گا کہ کس خطے کو کونسے حقوق حاصل ہیں اور انہیں کس چیز کی اجازت نہیں ہے۔ یورپی پارلیمان میں خارجہ امور کمیٹی کی نگران ایلمر بروک کہتی ہیں یوکرائن کی عوام نے دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ملک کے اتحاد اور جمہوریت کے لیے ووٹ دیا ہے۔ کییف میں کونراڈ آڈیناؤور فاؤنڈیشن کی سربراہ گابریئیلا باؤمن کے بقول یوکرائن کے ووٹروں نے یورپی راستے کا انتخاب کیا ہے: ’’یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ انتخابی عمل قانونی تھا۔ ووٹنگ کا تناسب بھی بہت زیادہ تھا اور پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔‘‘
یوکرائن کے نو منتخب صدر پیٹرو پوروشینکو نے وقت ضائع کیے بغیر ملک کو درپیش اصل مسائل کی جانب سے توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں امن کا قیام ان کی اولین ترجیح ہے۔
جرمنی کی لائپزگ یونیورسٹی کے تاریخ دان وِلفرائڈ جلگی کے مطابق یوکرائن میں پچاس فیصد سے زائد ووٹ لینے کا مطلب یہ ہے کہ جیتنے والے کو اپنے سیاسی مرکز کے باہر سے بھی ووٹ ملے ہیں: ’’ہمیں یقینی طور پر مشرقی حصوں کے نتائج کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ اگر روسی زبان بولنے والے افراد نے بھی مغرب نواز پوروشینکو کو ووٹ دیے ہیں تو اس طرح وہ مزید مضبوط ہوں گے۔‘‘
پیٹرو پوروشینکو نے کہا کہ وہ ملک کے مشرقی حصے میں روس نواز بغاوت ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ ماسکو حکام سے مذاکرات کرنے پر بھی راضی ہیں۔ دوسری جانب روس نے ان کی اس پیشکش کا مثبت انداز میں جواب دیا ہے۔ ساتھ ہی ماسکو حکام نے مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں کے خلاف عسکری آپریشن سے خبردار کیا ہے۔