یوکرائن میں تشدد، یورپی یونین متحرک
19 فروری 2014یوکرائن میں اس سیاسی بحران کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد 26 ہو گئی ہے جبکہ دیگر درجنوں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر وکٹور یانوکووچ نے ملک میں جاری پر تشدد کارروائیوں کے لیے اپوزیشن کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن اس وقت خونریز ترین بحران کا سامنا کر رہا ہے، جہاں حکومت مخالف مظاہرین روس نواز صدر یانوکووچ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کییف میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیے جانے کے باوجود بھی وہاں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہے۔ بالخصوص ’آزادی اسکوائر‘ پر موجود افراد کا جوش و ولولہ دیدنی قرار دیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن نے کہا ہے کہ گرفتاریوں یا اس طرح کے پرتشدد کریک ڈاؤن سے ان کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
گزشتہ رات اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ ناکام مذاکرات کے بعد یانوکووچ نے انہیں خبردار کیا کہ وہ ’ریڈیکل فورسز‘ سے دور رہیں۔ یاد رہے کہ یانوکووچ حکومت کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ شراکت داری کی ایک ڈیل کی منسوخی اور روس سے 15 بلین ڈالر کی مالیاتی امدادی لینے کے فیصلے کے بعد یوکرائن کے عوام گزشتہ تین مہینوں سے کییف کی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ یہ مظاہرین یورپ کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات کے خواہاں ہیں۔
ادھر یورپی یونین کے رہنماؤں نے یوکرائن میں اس تازہ تشدد پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوکرائن میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والے افراد کے خلاف فوری طور پر پابندیوں عائد کرنے کے ایک مسودے پر کام کر رہے ہیں۔ متعدد یورپی رہنماؤں نے یوکرائن کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے کوششیں شروع کرنے پر زور دیا ہے۔
بدھ کے دن جرمن چانسلر انگیلا میرکل اپنی کابینہ کے اہم ممبران کے ہمراہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ سے ملاقات میں یوکرائن کی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہی ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات میں یوکرائن میں تشدد کے ذمہ داران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔ فرانس میں تعینات جرمن سفیر سوزانے رائنر نے کہا ہے کہ دونوں رہنما یوکراین میں تشدد کے خاتمے کے لیے پابندیوں سمیت تمام پہلوؤں پر غور کریں گے تاہم عوام کا خیال رکھا جائے گا۔
دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ماسکو حکومت یوکرائن کے داخلی مسائل میں دخل نہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تاہم ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ کریملن نے صدر یانوکووچ پر زور دیا ہے کہ وہ حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
روئٹرز نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ رات پوٹن اور یانوکووچ نے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ملک میں جاری یہ تازہ تشدد دراصل یانوکووچ حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ماسکو حکومت کی طرف سے پیر کے دن کییف کو مالیاتی امدادی کے طور پر دو بلین کی رقوم موصول ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا۔