یوکرائن، عبوری حکومت کا یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا عہد
24 فروری 2014سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ میں سیاسی بحران کی بدلتی ہوئی شکل پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی حکام نے روس کو خبردار کیا ہے کہ وہ یوکرائن میں اپنے فوجی تعینات کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس یورپی ملک میں اقتدار کے خلاء کے نتیجے میں پیدا ہونی والی صورتحال کے تناظر میں مشرقی اور مغربی علاقوں میں ایک تناؤ کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔ یوکرائن کے مغربی علاقے یورپ نواز ہیں جبکہ مشرقی روس کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں ایسا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ملک دو حصوں میں منقسم ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں جرمنی، امریکا اور روس نے زور دیا ہے کہ یوکرائن کو ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی یوکرائن میں استحکام دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ جرمن چانسلر کے ترجمان اشٹیفان زیبرٹ نے بتایا ہے کہ انگیلا میرکل اور پوٹن نے سوچی ونٹر اولمپکس کی اختتامی تقریب سے قبل ٹیلی فون پر گفتگو کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ یوکرائن میں جلد از جلد نئی فعال حکومت کا قیام عمل میں آجانا چاہیے اور اس یورپی ریاست کی علاقائی سالمیت محفوظ رہنی چاہیے۔
یانوکووچ کی جگہ عبوری صدر کا عہدہ سنبھالنے والے اؤلکسنڈر ترشنوف (Oleksander Turchinov) نے اتوار کی رات گئے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی ایسے نئے مراسم چاہتے ہیں، جن کے تحت وہ یوکرائن کے یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کے انتخاب کے حق کو تسلیم کرے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن آج بروز پیر اپنے دورہ یوکرائن کے دوران کييف کو درپيش اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال کریں گی۔ دوسری طرف ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ اس نے کییف میں تعینات اپنے سفیر کو واپس بلایا ہے تاکہ یوکرائن کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر مشاورت کی جا سکے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے کہا ہے کہ وکٹور یانوکووچ کے مخالفین نے جمعے کے دن ہونے والی امن ڈیل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا ہے۔
قبل ازیں اتوار کے دن ہی یوکرائن کی پارلیمنٹ نے اسپیکر اؤلکسنڈر ترشنوف کو ملک کا عبوری صدر منتخب کر لیا تھا، جو پچیس مئی کے انتخابات تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ دوسری طرف یانوکووچ کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ یانوکووچ اب بھی یوکرائن میں ہی ہیں اور وہ خود کو ملک کا صدر تصور کرتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یانوکووچ ملک کے مغربی شہر خارکیف میں چلے گئے ہیں، جہاں روس کی حمایت کی جاتی ہے۔ خارکیف میں روسی زبان بولنے والے علاقائی رہنماؤں نے بھی کہا ہے کہ وہ دارالحکومت میں لیے جانے والے ان نئے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
ایک اور پیشرفت میں امریکی صدر باراک اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے ماسکو حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس یوکرائن میں اپنے فوجی روانہ کرتا ہے تو یہ ’ایک بہت بڑی غلطی‘ ہو گی۔ رائس کے بقول واشنگٹن حکومت یوکرائن میں آئینی ترامیم اور جمہوری انتخابات کے علاوہ وہاں گزشتہ ہفتوں سے بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کا خاتمہ چاہتی ہے۔
کییف حکومت کے بقول حالیہ دنوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 82 ہے جبکہ اپوزیشن کے بقول 100 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔ یوکرائن کے نئے وزیر داخلہ نے مظاہرین کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے طاقت کے مبینہ ناجائز استعمال کے حوالے سے تحقیقات کا حکم جاری کر دیا ہے۔