یوکرائن: حکومت اور اپوزیشن میں ڈیل طے پا گئی
22 فروری 2014ڈیل کے تحت صدر وکٹر یانوکووچ قبل از وقت انتخابات کروائیں گے اور ایک نئی یونٹی حکومت تشکیل دیں گے۔ اس ڈیل پر کییف کے مرکزی چوک میں ڈھیرہ لگائے چالیس ہزار مظاہرین کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مظاہرین میں سے بعض نے دسمبر میں انتخابات سے قبل یانوکووچ کے مستعفی ہونے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ دوسری جانب پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی حمایت یافتہ قراردادوں کو بھی منظوری حاصل ہوئی ہے۔
پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قراردادوں کی اب صدر یانوکووچ نے توثیق کرنی ہے۔ اسی توثیقی عمل کے بعد یورپ نواز خاتون سیاستدان یولیا ٹیموشینکو کی رہائی کا امکان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ وہ سن 2010 سے جیل میں ہیں۔ پارلیمنٹ نے موجودہ وزیر داخلہ ویٹالی زاخارچینکو کی برطرفی کی قرارداد بھی منظور کی۔ نئی یونٹی حکومت کو یہ اختیار بھی حاصل ہو گا کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ اُس شراکتی ڈیل کو تسلیم کرے جسے یانوکووچ نے مسترد کر دیا تھا۔
یوکرائن میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے پانے والی ڈیل جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر، فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس اوریوکرائن کے ثقافتی روابط کے حامل ملک پولینڈ کے وزیر خارجہ راڈو سلاو سیکروسکی کی مسلسل رابطہ کاری کا نتیجہ ہے۔ تینوں وزرائے خارجہ یورپی یونین کے نمائندوں کی حیثیت میں کییف میں ثلثی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
ڈیل کے بعد فرانسیسی وزیر خارجہ لاراں فابیوس کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں جو یوکرائن کے عوام کے لیے بہتر تھا وہ حاصل کیا گیا ہے۔ ڈیل پر یانوکووچ اور ویٹالی کلچکو نے دستخط کیے۔ کییف میں روسی صدر کے نمائندے ولادیمیر لُوکِن بھی موجود ہیں لیکن وہ دستخط کرنے کی تقریب سے دور رہے۔ اس ڈیل کی مناسبت سے روسی مندوب لُوکِن کا کہنا تھا کہ ماسکو اور کییف کے درمیان مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔
ڈیل کے بعد جب اپوزیشن لیڈران کییف کے مرکزی چوک پہنچے تا کہ وہ مظاہرین کو ڈیل کی بابت آگاہ کر سکیں تو مظاہرین نے لیڈروں پر آوازیں کسنے کے علاوہ سیٹیاں بجا کر اُن کا مزاق بھی اڑایا۔ اپوزیشن لیڈر وٹالی کلچکو جب تقریر کر رہے تھے تو مظاہرین میں شریک ایک دائیں بازو کے سرگرم احتجاجی نے بلند آواز میں کہا کہ وہ ہفتے کی صبح دس بجے تک یانوکووچ کو منصبِ صدارت سے مستعفی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دائیں بازو کے کارکن کی آواز کو بقیہ مظاہرین نے پرزور انداز میں سراہا۔ کچھ تو یہ بھی کہتے پائے گئے کہ اگر یانوکووچ مستعفی نہ ہوئے تو وہ ہتھیار لے کر دھاوا بول دیں گے۔ دائیں بازو کے ایک لیڈر دیمتری یاروش نے مظاہرین سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور رکاوٹوں کو بھی ختم کر دیں۔
یوکرائن میں اپوزیشن اور صدر کے درمیان ہونے والی ڈیل کا خیر مقدم امریکا کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا ہے کہ یوکرائن کی صورت حال پر صدر اوباما نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ جے کارنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی حکومت یوکرائن میں ہونے والے خون ریز مظاہروں کے تناظر میں بعض پابندیاں لگانے کے لیے تیار ہے اور ان کا اطلاق اُس وقت کیا جائے جب ضرورت ہو گی۔ کارنی کے مطابق پرامن یوکرائن روس کے مفاد میں بھی ہے اور واشنگٹن اب طے پائی جانے والی ڈیل کے اطلاق میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔