یونان میں عام ہڑتال: کاروبار زندگی متاثر
26 ستمبر 2012تقریباً سارا یونان بدھ کے روز ہونے والی ہڑتال سے متاثر ہوا۔ تمام بڑے چھوٹے شہروں میں وزیراعظم ساماراس کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے نئے بچتی اقدامات کے خلاف ہزاروں افراد سراپا احتجاج ہیں۔ ساماراس حکومت کو نئی بچتی پالیسی کے نفاذ کے لیے یورپی یونین اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے خاصے دباؤ کا سامنا ہے۔ انہی اقدامات کے بعد ہی یونان کی علیل اقتصادیات کو بیل آؤٹ پیکج کی اگلی قسط جاری ہونے کا امکان ہے۔ بیل آؤٹ پیکج کی قسط کا حجم گیارہ ارب یورو سے زائد ہے۔ یونان میں وزیر اعظم انتونس ساماراس نے جون میں انتخابات میں کامیابی کے بعد مخلوط حکومت قائم کی تھی۔
بدھ کی ہڑتال میں حکومتی اور عوامی سبھی حلقے شامل ہیں۔ ریل گاڑیوں کی سروس معطل ہے۔ پروازوں کی معطلی کے باعث ہوائی اڈے ویران ہیں۔ اسی طرح سمندری علاقے میں مسافر بردار فیری سروس کا سلسلہ بھی بند ہے۔ پبلک سیکٹر کے ملازمین بھی اس ہڑتال میں شریک ہیں۔ شہر کے بازاروں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی دلچسپی کے مقامات اور خاص طور پر عجائب گھر بھی بند ہیں۔ یونان کے بڑے شہروں ایتھنز اور سالونیکی میں ہزاروں افراد نے بچتی اقدامات کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی۔
بدھ کے روز کی جانے والی ہڑتال میں سرکاری ملازمین کے علاوہ نجی اداروں کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ طالب علم اور مزدور بھی ہڑتال کے دوران حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج بلند کرنے کے سلسلے میں پیش پیش ہیں۔ ہڑتال کے دوران کیے جانے والے مظاہروں میں ریٹائرڈ افراد بھی شریک ہیں کیونکہ ان کی پینشنوں کو بھی کٹوتی کا سامنا ہے۔ نوجوان طلبا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کی جنگ میں شریک ہیں۔ ایک نوجوان خاتون اناستاسیا ٹیلونی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں صرف کسی غیر معمولی واقعے کے بعد ہی وہ روزگار حاصل کر کے قابل عزت زندگی بسر کرنا شروع کر سکتی ہے۔ عام لوگ اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ وہ شدید اور سنگین سماجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ تنخواہ دار ہڑتالیوں کے مطابق ان کی تنخواہوں میں غیر معمولی کمی کی جا چکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالات اس قدر پیچیدہ اور گھمبیر ہو چکے ہیں کہ اس بات کی بھی خبر نہیں ہوتی کہ اگلے دن ان کے پاس ملازمت ہوگی یا نہیں۔
ایتھنز اور سالونیکی میں مظاہرین بند بازاروں اور دفاتر کے علاقوں میں واقع سڑکوں اور گلیوں میں صدائے احتجاج کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ رواں برس کی تیسری جنرل ہڑتال ہے جو سارے ملک میں کی گئی۔ رواں برس جون میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت کے دور میں یہ پہلی ملک گیر ہڑتال ہے۔
ah/aba(AFP)