یورپی یونین کے لیے نیا سال طوفانی ہو گا!
31 دسمبر 2024یوکرین کی ابتر صورتحال، جنگی جنون میں مبتلا روس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی نرگیست پسندی سن دو ہزار پچیس میں یورپی یونین کے لیے تین بڑے چیلنج ہوں گے۔
دوسری طرف جرمنی اور فرانس کے اندرونی مسائل جیسا سست معیشت، قرضوں کی بلند سطح اور محدود سیاسی صلاحیت کی وجہ سے یورپی یونین کے لیے مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا عوامل کے باعث سن دو ہزار پچیس میں یورپی یونین کے لیے پیچیدگیاں دوچند ہو سکتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یورپی یونین کی نئی ٹیم کے لیے آگے کیا ہے؟
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یورپی قیادت بھی نئی ہی ہے۔ یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی اعلی نمائندہ کایا کالس نے یکم دسمبر سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔
منجھی ہوئی سیاستدان اوزلا فان ڈیر لاین اگرچہ اب بھی یورپی کمیشن کی سربراہ ہیں لیکن یہ یورپی ادارہ مکمل طور پر از سر نو تشکیل دے دیا گیا ہے۔
یورپی یونین انسٹی ٹیوٹ فار سکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اسٹیون ایورٹس کے مطابق تمام تر ممکنہ مسائل کے باوجود یورپی یونین کی نئی ٹیم کے پاس چیلنجز سے نمٹنے کے مواقع ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اسٹیون نے کہا کہ اگرچہ اس وقت یورپی یونین میں ایک نئی قیادت اقتدار سنبھال رہی ہے تاہم یہ وہ لمحہ ہے جب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور اسے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے یورپی یونین کی بنیادی اقدار کا احیاء ممکن ہے۔
یوکرین کے لیے مزید مدد
ترجیحی کاموں میں سرفہرست یوکرین کے لیے مالی اور فوجی امداد ہے، جو روسی حملے کی زد میں ہے۔ یورپی یونین نے سن 2025 میں اپنے مشترکہ بجٹ سے ہر ماہ 1.5 بلین یورو (1.6 بلین ڈالر) کییف کو فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
یوکرین میں فوج کی تعیناتی پر زیلنسکی اور ماکروں میں تبادلہ خیال
چین یوکرین کے خلاف روسی جنگ کی مخالفت کرے، جرمنی کا مطالبہ
اس کے علاوہ جی سیون کی جانب سے یوکرین کے لیے 50 ارب یورو کا قرضہ بھی مختص کیا گیا ہے۔ یہ رقم منجمد روسی اثاثوں سے حاصل ہونے والے منافع سے نکالی جائے گی۔
اس کے علاوہ یورپی یونین میں شمولیت کے امیدوار یوکرین کی مدد کرنے کے لیے بڑی مقدار میں گولہ بارود اور ہتھیاروں کی فراہمی بھی ممکن بنانے کا پلان ہے۔ یہ مالی اعانت یورپی ریاستوں کی طرف سے کی جائے گی۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یوکرین کو دی جانے والی اپنی دھمکیوں پر عمل کرنا شروع کر دیا تو نتیجتا یوکرین کے لیے امریکی امداد میں کٹوتی یا منسوخی ہو گی اور یوں اضافی بوجھ بھی یورپی یونین پر منتقل ہو جائے گا۔
یورپی سفارت کاروں کے مطابق برسلز میں اس بارے میں شدید قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اگر امریکہ پیچھے ہٹا تو یوکرین کی مدد کے لیے یورپی یونین کو مزید کتنی رقم درکار ہو گی۔
دفاعی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری
یوکرین کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ یورپی یونین روس کے خلاف اپنے دفاع کو بھی مزید بہتر کا منصوبہ رکھتی ہے۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے ڈیفنس اینڈ اسپیس آندریوس کوبیلیوس کو یورپی فوج بنانے کا کام تو نہیں سونپا گیا تاہم انہیں یہ ذمہ دارایاں دی گئی ہیں کہ وہ رکن ممالک کی اسلحے اور خریداری کی پالیسیوں کو بہتر طور پر مربوط کریں۔
یورپی یونین کی بہت سی ریاستوں کا بجٹ اتنا کم ہے کہ وہ فوری طور پر نئے ہتھیار خریدنے یا اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد اگر یورپی دفاع کے لیے امریکی اخراجات میں کٹوتی کرتے ہوئے یورپی ممالک سے مزید مالی تعاون کا مطالبہ کرتے ہیں تو یورپی یونین پر دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
فوجیں لڑائیاں لیکن معشتیں جنگیں جیتتی ہیں، نیٹو عہدیدار
یورپی ممالک کے دفاعی اخراجات اب کہیں زیادہ، آئی آئی ایس ایس
میونخ میں قائم اقتصادی تحقیقی ادارے آئی ایف او کے اندازوں کے مطابق میڈیم ٹرم میں صرف جرمنی کا دفاعی بجٹ 230 ارب یورو کے خسارے میں ہے۔ اٹلی کا یہ خسارہ 120 ارب یورو ہے جبکہ اسپین میں 80 بلین یورو۔
دریں اثنا جرمنی کے نئے وزیر خزانہ ژورگ کوکیز نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے کہ کچھ رکن ریاستوں کے فوجی اخراجات میں مدد فراہم کرنے کی خاطر یورپی یونین کے اضافی مشترکہ قرضوں سے رقم نکالی جائے۔
قرضوں کی بہتر انتظام و انصرام
سن 2025 میں نہ صرف مزید فوجی اخراجات کی ضرورت ہوگی بلکہ مختلف شعبوں میں ماحول دوست پالیسیاں ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ غزہ، لبنان اور شام میں تعمیر نو کے لیے بھی رقوم کی ضرورت ہو گی۔
یورپی مرکزی بینک کے سابق سربراہ ماریو دراگی نے اس سال کے اوائل میں یورپی یونین کی معیشت کی مسابقت پر ایک رپورٹ میں 800 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
اطالوی ماہری اقتصادیات دراگی نے نجی سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لانے کے لیے اسٹارٹ اپس کو فنانس کرنے کے لیے مزید مشترکہ قرضے دینے کی سفارش بھی کی تھی۔
تاہم فرانس اور اٹلی کو پہلے ہی یورپی یونین کی جانب سے خسارے سامنا ہے جبکہ سپین بھی جلد ہی اس فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔
اگرچہ جرمنی یورپی یونین کے قرضوں کی حد سے نیچے ہی ہے لیکن فرروی میں ہونے والے قبل از وقت انتخابات کی وجہ سے برلن حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس صورتحال میں جرمنی کے فیوچر وزیر خزانہ آئندہ مالی سال کا بجٹ ترتیب دینے میں تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
تجارتی پالیسی اور اتحاد برقرار رکھنے کی کوشش
یورپی یونین کے لیے سن دو ہزار پچیس کا سال تجارتی پالیسیوں کے لیے بھی ایک مشکل برس ہو سکتا ہے۔ برقی کاروں کی دوڑ میں یورپی یونین اور چین کے مابین ایک تجارتی جنگ کا خطرہ ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ یورپ، چین، میکسیکو اور کینیڈا پر عائد تادیبی محصولات پر ڈرامائی تنازعہ پیدا کر سکتے ہیں۔
یورپی پالیسی سینٹر تھنک ٹینک سے وابستہ یورپی یونین امور کے ماہر جینس ایمانو لیڈس نئے سال کے بارے میں پرامید نہیں ہیں۔
دسمبر کے اوائل میں برسلز میں ایک تقریب میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی اور فوجی چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے جینس نے کہا تھا، ''یورپی یونین ہمیشہ سمجھوتے کی ضامن رہی ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنی یہ صلاحیت کھو دی ہے۔ یورپی یونین کے پاس اب بہت سی باتوں کا جواب نہیں ہے۔ سیاست میں قوم پرستی زیادہ آ چکی ہے۔‘‘
2025ء میں عالمی معیشت کو کن چیلنجز کا سامنا رہے گا؟
اولین ترجیح یوکرینی بحران کا خاتمہ ہو گا، ڈونلڈ ٹرمپ
جینس کے خیال میں بہت سے حلقے بالخصوص مغربی بلقان میں یورپی یونین کے امیدوار ممالک امید کھو چکے ہیں کہ 27 رکنی یہ بلاک مستقبل میں اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مخصوص حالات میں فرانس اور جرمنی یورپی یونین میں اہم کردار ادا کریں لیکن فرانس اپنے حکومتی بحرانوں کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہے جبکہ قبل از وقت الیکشن نے جرمنی کے عمل کرنے کی صلاحیت محدود کر دی ہے۔
ادھر ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے یورپی یونین کونسل کی صدر ملک کی حیثیت سے روس سے قربت پیدا کرتے ہوئے یوکرین میں قیام امن کی کوشش کی اور وہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بھی منتظر ہیں۔
اس صورتحال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سن 2025 دلچسپ تو ہو گا لیکن نیا سال یورپی یونین کے لیے بہت طوفانی ہو گا۔
بیرنڈ ریگرٹ (ع ب / ع ت)
یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا تھا۔