یورپی یونین: بجٹ کے موضوع پر سربراہ کانفرنس
7 فروری 2013یہ اپنی نوعیت کی دوسری کوشش ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والی پہلی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔ یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل باروسو نے یورپی پارلیمان سے اپنے ایک خطاب میں یونین کے تمام رکن ممالک کی حکومتوں پر اتفاقِ رائے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا:’’نازُک اقتصادی بہتری کے اس دور میں مزید تاخیر ایک بہت ہی منفی پیغام کے مترادف ہو گی۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ کوئی اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں اختلافات مزید شدت اختیار کر جائیں گے اور پھر کسی مشترکہ موقف پر پہنچنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
اگرچہ آج سے شروع ہونے والے دو روزہ سربراہ اجلاس سے بڑی مثبت توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں تاہم مختلف رکن ملکوں کے درمیان بجٹ کے حوالے سے اختلافات بدستور موجود ہیں۔
امیر شمالی یورپی ممالک، جن میں جرمنی کے ساتھ ساتھ ہالینڈ اور سویڈن بھی شامل ہیں، بجٹ میں کٹوتی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ جب ہر جگہ قومی سطح پر بچت کی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں تو یورپی یونین کا بجٹ بھی ان پالیسیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس سلسلے میں برطانیہ نہ صرف یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے کی مفاہمتی تجویز پر بھی عدم اطمینان ظاہر کر چکا ہے بلکہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں کہ مشترکہ خزانے میں ادائیگیوں کے حوالے سے برطانیہ کو حاصل مراعات آئندہ بھی باقی رہنی چاہییں۔ تاہم جرمنی سمیت دیگر ممالک کو بھی مراعات حاصل ہیں یا وہ مراعات کے خواہاں ہیں۔
امیر ممالک کے برعکس جنوبی یورپی غریب ممالک کا موقف یہ ہے کہ بچتی پالیسیوں ہی کی وجہ سےاُن کے ہاں بیروزگاری اور غربت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ صورتِ حال کو کسی قدر متوازن بنانے کے لیے یورپی یونین کے بجٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس موقف کے حامیوں میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند بھی شامل ہیں، جنہوں نے رواں ہفتے منگل کو یورپی پارلیمان کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’بچت، ہاں... معیشت کو کمزور کرنا، نہیں۔‘‘
اور اولاند کو اپنے اس موقف میں یونین کے زیادہ تر رکن ممالک کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کے بجٹ کا مالیاتی حجم رکن ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کے محض تقریباً ایک فیصد کے برابر ہے۔
بجٹ میں کٹوتیوں کی حامی قوتیں زراعت کے شعبے میں اعانتوں اور یورپی پارلیمان کے برسلز اور اسٹراس برگ میں دو مختلف مراکز کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاہ خرچیوں کا یہ سلسلہ اب رُک جانا چاہیے۔ پہلے یورپی کمیشن نے ایک ٹرلین (ایک ہزار ارب) یورو سے زیادہ کے بجٹ کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اب 950 تا 970 ارب یورو کی بات کی جا رہی ہے۔
C.Hasselbach/aa/ah