یورپی پانیوں میں ہمیشہ باقی رہنے والے کیمیکلز کی وسیع مقدار
26 جنوری 2025یورپی یونین کی ماحولیاتی ایجنسی ای ای اے نے خبردار کیا ہے کہ یورپ کے آبی ذخائر میں ہمیشہ باقی رہنے والے کیمیائی مادوں کی مقدار اکثر اُس حد سے تجاوز کر لیتی ہے جو انسانوں کی صحت اور ماحول کی حفاظت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
اس تحقیقی جائزے کی مصنفہ نادیا چیریولی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ، ’’پی ایف او ایس کا یہ مسئلہ نہ صرف دور رس ہے بلکہ یہ کیمیکل وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق، 2018 سے 2022 کے دوران یورپ کے مختلف آبی ذخائر میں پی ایف او ایس کی مقدار ماحولیات کے تحفظ اور انسانی صحت کی سلامتی کے لیے مقرر کردہ حد سے تجاوز کر رہی تھی۔
یہ رپورٹ یورپ کے آبی ذخائر میں پی ایف او ایس کی مقدار کا پہلا مکمل جائزہ ہے، جسے عالمی ادارہ صحت نے انسانوں میں ممکنہ طور پر کینسر کا سبب بننے والا کیمیکل قرار دیا ہے۔
تاہم، یہ اعداد و شمار صرف ان ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل ہیں جنہوں نے پی ایف او ایس کی مقدار کے حوالے سے رضاکارانہ طور پر معلومات فراہم کیں۔ اس لیے، یہ اعداد و شمار یورپ کے تمام ممالک کی مکمل صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے۔
سن 2022 میں صرف 14 ممالک نے اپنے سطحی پانیوں میں آلودگی کی مقدار کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔
ڈیٹا کے مطابق، بیلجیئم، فرانس اور آئس لینڈ کے پانیوں میں پی ایف او ایس کی مقدار ماحولیاتی معیار کی مقررہ حد سے تجاوز کر گئی تھی۔ دوسری جانب، اسپین، آئرلینڈ، پولینڈ، کروشیا اور اسٹیونیا کے جن آبی ذخائر کا ڈیٹا فراہم کیا گیا تھا، ان میں سے 20 فیصد سے بھی کم ذخائر میں پی ایف او ایس کی مقدار ماحولیاتی معیار کی حد سے تجاوز کر رہی تھی۔
صرف تین ممالک، بلغاریہ، لٹویا اور مونٹی نیگرو میں کسی بھی مقام پر پی ایف او ایس کی مقدار رہنمائی حد سے تجاوز کرتی نہیں پائی گئی۔
رپورٹ کے ایک اور مصنف ماونوس لوف اسٹڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں آبی ذخائر میں آلودگی کا مکمل اندازہ لگانے کے لیے مزید ڈیٹا درکار ہے تاکہ ہم ان کیمیائی مادوں کے ہاٹ اسپاٹس کا پتہ لگا سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں ایسے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے پانی میں کیمیائی مادوں کی کم مقدار میں موجودگی کی نشاندہی بھی کی جا سکے۔
ماونوس لوف اسٹڈ کے مطابق، یہ کہنا مشکل ہے کہ پی ایف او ایس کے سبب پانی میں آلودگی کس رفتار سے پھیل رہی ہے۔ اس حوالے سے مکمل ڈیٹا کافی عرصے سے جمع نہیں کیا گیا، اس لیے پابندی کے باوجود یہ کہنا ممکن نہیں کہ آلودگی میں کمی آئی یا اضافہ ہوا ہے۔
ح ف/ک م (اے ایف پی)