یورپی پابندیوں کے جواب میں روسی اقدامات
6 اگست 2014یورپی یونین نے یوکرائن کے بحران کے تناظر میں روس پر پہلے سے عائد پابندیاں مزید سخت کر دیں ہیں۔ اس دوران کریملن کے رد عمل کا انتظار کیا جا رہا تھا اور اب روسی صدر نے جوابی اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے کہا ہے کہ انہوں نے احکامات جاری کر دیے ہیں، جن کو دیکھتے ہوئے یورپی یونین کی پابندیوں کا جواب دیا جائے گا، ’’ دباؤ بڑھانے کے لیے اقتصادی پابندیوں کا سیاسی حربہ ناقابل قبول ہے۔ یہ طریقہ کار تمام اخلاقی جواز اور ضابطوں کے خلاف ہے۔ کچھ ممالک کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے بعد ہی روسی حکومت نے جوابی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر پوٹن نے حکومت کو اس سلسلے میں جوابی اقدامات کی تیاری کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ روسی وزیراعظم دیمتری میدویدیف نے یورپی ممالک کی جانب سے قومی فضائی کمپنی ایروفلوٹ کے ایک ذیلی ادارے کو نشانہ بنانے پر تنقید کرتے ہوئے اس کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔ یورپی اقدامات کی وجہ سے اس سستی ایئر لائن کو اسی ہفتے پیر سے اپنے دفاتر بند کرنا پڑ گئے ہیں۔ روسی اخبار ’ ویدموستی‘ کے مطابق ملکی وزارت خارجہ اور نقل و حمل کے ادارے کی جانب سے مغربی ممالک کی فضائی کمپنیوں کے اجازت نامے محدود کرنے یا انہیں منسوخ کرنے کے بارے میں سوچ و بچار کی جارہی ہے۔ اس طرح جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا بھی متاثر ہو سکتی ہے، جو ہر ہفتے تقریباً 180 مرتبہ روسی فضائی حدود استعمال کرتی ہے۔
روس خام مال کے اپنے ذخائر کو سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یورپی یونین میں درآمد کی جانے والی گیس اور تیل کی ایک تہائی مقدار روس سے آتی ہے۔ تاہم توانائی کے امور کی ماہر کلاؤڈیا کیمفرٹ کہتی ہیں کہ روس کے لیے گیس اور تیل کی فراہمی کو فوری طور پر روکنا آسان نہیں ہے۔ ان کے بقول اس حوالے سے کیے جانے والے معاہدے کئی سالوں پر محیط ہیں اور ان میں قیمتوں کا بھی پہلے ہی سے تعین کیا جا چکا ہے۔ کیمفرٹ مزید کہتی ہیں کہ اس وجہ سے روس قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر روس یورپ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو ختم کرنے یا مغربی یورپ کی معیشت کو نقصان پہنچانے کا سوچتا بھی ہے تو اس طرح اُسے بھی شدید نقصان پہنچنے گا۔ کیونکہ روس اپنی زیادہ تر معدنیات یورپی ممالک کو ہی فروخت کرتا ہے۔