یورپ میں ہم جنس پرستوں کی مشکلات
24 مئی 2013جرمنی میں اینٹی ڈسکریمینیشن ایجنسی کی سربراہ کرسٹین لوڈرز نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسکول میں ایسے بچوں پر جملے کسے جاتے ہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے پر انہیں روزگار حاصل کرنے میں دشوار ہوتی ہے اور بہت سے مقامات پر انہیں جسمانی تشدد بھی سہنا پڑتا ہے۔ اُن کا یہ ادارہ امتیازی سلوک کے شکار بنننے والے ان افراد کی نفسیاتی الجھنوں کے حل میں ان کی مدد کرتا ہے۔
جرمنی میں اینٹی ڈسکریمینیشن ایجنسی کی سربراہ کرسٹین لوڈرز کے بقول یورپی سطح پر ہم جنس پرستوں، خواجہ سراؤں اور دو جنسی خصلت کے حامل افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار کو ایک لمحہ فکریہ قرار دیا۔ ’’یہ یورپی یونین کے رکن ممالک بشمول جرمنی کے لیے ایک انتباہ ہے۔ 2012ء میں کیے جانے والے جائزے میں شامل نوے فیصد نے بتایا کہ ہم جنس پرستی کی جانب رغبت کی وجہ سے انہیں اسکول میں امیتازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس دوران دو تہائی کو تو اپنی جنسی خواہشات تک کو چھپانا بھی پڑا تھا ‘‘۔
لوڈرز نے مزید بتایا کہ یہ جائزہ گزشتہ برس ایرپل سے جولائی کے درمیان آئن لائن مرتب کیا گیا۔ اس میں 93 ہزار افراد نے اپنے تجربات شامل کیے۔ ان میں سے47 فیصد کا کہنا تھا کہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران انہیں ان کے جنسی میلان کی وجہ سے تفریقی برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جرمنی میں یہ تعداد 48 فیصد ہے۔ اس جائزے میں شامل نصف سے زائد تعداد نے بتایا کہ عوامی مقامات پر وہ اپنے ہم جنس پارٹنر کے ساتھ خوف کی وجہ سے پیار و محبت اور الفت کا اظہار کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسکول کے دور سے ہی وہ اس خوف کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس بناء پر کرسٹین لوڈورز کہتی ہیں کہ اس تناظر میں اسکولوں کے ماحول پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ’’جب تک اسکولوں میں ہم جنس پرستی کو ایک گالی کے طور پر استعمال کیا جائے گا، اساتذہ کلاسوں جنسی رجحانات کے بارے میں نہیں سمجھائیں گے یہ مسئلہ حل کرنا بہت ہی مشکل ہے‘‘۔
اس جائزے میں شامل 26 فیصد افراد کو ان کی جنسی فوقیت کی وجہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تشدد اور دھمکیوں تک کا سامنا تک کرنا پڑا ہے۔ اس جائزے کے مطابق ہر پانچویں ہم جنس پرست کو آفس یا اداروں میں اُس کی جنسی خواہشات کی وجہ سے نفرت آمیز رویے کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ لوڈرز کے بقول یہ بات بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے کہ کسی مرد ہم جنس پرست کے ساتھ ایسے برتاؤ کیا جائے کہ جیسا کہ وہ ایک خاتون ہو۔ ’’ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ روز گار کی منڈی میں ہم جنس پرستوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جائے اور ان پر دروازے بند کر دیے جائیں۔ ہمارے پاس ایسی ہم جنس خواتین نے بھی شکایات درج کرائی ہیں کہ انٹرویوکے دوران ان سے یہ کہا گیا کہ کمپنی میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔
یورپی یونین کی اگر بات کی جائے تو جنوب مشرقی اور مشرقی یورپ میں ہم جنس پرستوں، خواجہ سراؤں اور دوجنسی خصلت کےحامل افراد کو عام زندگی میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ دیگر یورپی ممالک میں صورتحال قدرے مختلف ہیں۔ جبکہ اس حوالے سے اسکینڈی نیوین ممالک میں ہم جنس پرستوں کو سب سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جرمنی میں ہم جنس پرستوں کی ایک تنظیم ’ LSVD ‘ کے سربراہ کلاؤس ییٹز کہتے ہیں کہ معاشرے کو اس سلسلے میں مزید برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان کا بھی موقف یہی ہے کہ اسکولوں میں اس موضوع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔’’ ہم جنس پرستی کے حوالے سے معاشرے میں برداشت پائی جاتی ہے۔ صورتحال ابھی بھی ایسی ہے لیکن جرمنی سمیت دیگر ممالک میں ہم جنس پرست مخالفت افراد کی تعداد پندرہ سے بیس فیصد ہے‘‘۔
کلاؤس نے مزید کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی جب فرانس میں ہم جنس پرستوں کو شادی کا حق دینے کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف مظاہرے ہی نہیں تھے بلکہ اس دوران ان افراد کے خلاف پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے۔کرسٹین لوڈرز اور کلاؤس ییٹز دونوں کا یورپی حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرح کے امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو کسی بھی وجہ سے نفرت آمیز سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
F. jennifer / ai / zb