یورپ میں غیر قانونی مہاجرین: کوٹہ تجویز، برطانیہ کو اعتراض
13 مئی 2015یورپی یونین کو بحیرہء روم کے راستے شمالی افریقہ سے یورپ کا رخ کرنے والے ہزار ہا غیر قانونی تارکین وطن کی مسلسل آمد کی وجہ سے بحرانی حالات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں رکن ملکوں کے مابین کافی عرصے سے ایک ایسی حکمت عملی زیر بحث ہے، جس کے تحت کسی ایک جنوبی یورپی ملک پر بہت زیادہ بوجھ کا سبب بننے کی بجائے ان غیرقانونی تارکین وطن کو دیگر رکن ریاستوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔
اس بارے میں برسلز میں یونین کے ہیڈکوارٹرز سے بدھ تیرہ مئی کی سہ پہر ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یورپی کمیشن نے اب یہ تجویز دی ہے کہ ایسے غیر قانونی مہاجرین کو نہ صرف رکن ملکوں کی آبادی اور استطاعت کے مطابق ان میں تقسیم کیا جانا چاہیے بلکہ ان میں سے 20 ہزار کے قریب فوری تحفظ کے ضرورت مند تارکین وطن کی براہ راست آبادکاری کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔
یورپی یونین بحیرہ روم کے راستے یورپ کا رخ کرنے والے ان غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے سے یوں تو طویل عرصے سے نمٹنا چاہتی تھی، جس دوران بہت سے غیر ملکی سمندر میں ہی ڈوب کر ہلاک بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس موضوع پر فوری طور پر فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت گزشتہ ماہ اس وقت اور بھی زیادہ ہو گئی تھی جب اپنی نوعیت کے ایسے آج تک کے سب سے ہلاکت خیز واقعے میں 800 سے زائد ایسے تارکین وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی نگران عہدیدار فیڈیریکا موگیرینی نے آج اس حوالے سے برسلز میں کہا کہ ہزار ہا غیر قانونی تارکین وطن کی یورپ آمد ایک ’تاریخی چیلنج‘ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے تمام رکن ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس جتنے بھی غیر قانونی تارکین وطن نے یونین کے رکن ملکوں میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، ان میں سے 72 فیصد کا سامنا 28 میں سے صرف پانچ رکن ملکوں کو کرنا پڑا تھا۔
اب یورپی کمیشن نے پناہ کے متلاشی ایسے افراد کے لیے جو کوٹہ سسٹم تجویز کیا ہے، اس کے مطابق یورپ پہنچنے والے اور فوری تحفظ کے ضرورت مند غیر ملکوں کو ان ملکوں میں رکھنے کی بجائے، جہاں سے وہ یورپ میں داخل ہوئے ہوں، بلاتاخیر اس بلاک کی رکن دیگر ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
اس کوٹہ سسٹم کے مطابق سب سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو جرمنی میں آباد کیا جائے گا، جو یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جرمنی بھیجے جانے والے تارکین وطن کی تعداد ان کی مجموعی تعداد کا 18.42 فیصد ہو گی۔ اسی طرح فرانس بھیجے جانے والے ایسے پناہ گزینوں کی تعداد 14.17 فیصد ہو گی جبکہ اٹلی کو اپنے ہاں ایسے 11.84 فیصد غیر قانونی تارکین وطن کو پناہ دینا ہو گی۔
برسلز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان اعداد و شمار میں برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک کو شامل نہیں کیا گیا اور وہ یورپی یونین کے رکن ہونے کے باوجود یورپی کمیشن کی ان کوٹہ تجاویز پر عملدرآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔
اس مجوزہ کوٹہ سسٹم پر اس کے اعلان کے فوراﹰ بعد برطانیہ سمیت کئی رکن ریاستوں کی طرف سے شدید تنقید بھی کی گئی ہے۔ اس بارے میں برطانوی وزیر داخلہ ٹیریسا مے نے تو اس کوٹہ سسٹم کے اعلان سے پہلے ہی اپنے آج شائع ہونے والے ایک اخباری مضمون میں کہہ دیا تھا کہ یورپ کو زیادہ تر افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایسے غیر قانونی تارکین وطن کو زبردستی ان کے آبائی ملکوں میں واپس بھیجنا چاہیے۔
ٹیریسا مے نے یورپی یونین سے ایسے غیر قانونی مہاجرین کی جبری واپسی کا ایک باقاعدہ پروگرام ترتیب دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لندن حکومت یونین کی رکن ریاستوں کے لیے برسلز کے طے کردہ مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین مہاجرین کی حوصلہ شکنی نہ کر کے ان کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔
برطانوی وزیر داخلہ نے یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈیریکا موگیرینی کے اس بیان سے بھی اختلاف کیا کہ یورپی یونین نے بحیرہء روم کے پانیوں سے جن غیر قانونی تارکین وطن کو ریسکیو کیا ہے، ان میں سے کسی بھی مہاجر کو اس کی مرضی کے بغیر واپس نہیں بھیجا جائے گا۔