یورپ بدستور شدید سردی کی لپیٹ میں: 164 ہلاک
3 فروری 2012یوکرائن سے اٹلی تک حکومتیں اور عوام نکتہ انجماد سے گرے درجہٴ حرارت کے بعد کی صورت حال سے نبردآزما ہیں۔ مشرق یورپ کے بعض ملکوں میں سردی اور شدید برفباری نے انتہائی مشکل حالات پیدا کر دیے ہیں۔ کئی مقامات پر شدید برفباری میں لوگ پھنس کر رہ گئے ہیں۔ عارضی پناگاہوں میں لوگوں کی منتقلی کا عمل بھی شروع ہے۔ کئی ملکوں میں سڑکوں اور ریل کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ جرمنی کے کئی شہروں میں بھی ٹمپریچر نکتہٴ انجماد سے گرا ہوا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے شہر بون میں گزشتہ تین دن سے زیادہ سے زیادہ درجہٴ حرارت منفی سات سے کم چل رہا ہے۔
یورپ کے مختلف ملکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 164 تک پہنچ گئی ہے۔ انٹرنینشل ریڈ کراس کے مطابق بیشتر ہلاک شدگان بے گھر افراد ہیں اور یہ شدید سردی میں تقریباً منجمد ہو کر ہلاک ہوئے۔ یوکرائن بظاہر سب سے زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے جہاں ہزاروں افراد کے لیے شیلٹرز بنا کر انہیں ایمرجنسی امداد دی جا رہی ہے۔ ریڈ کراس بھی متاثرہ افراد کو گرم کپڑے، کمبل اور گرم کھانا فراہم کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
یوکرائن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 63 ہو گئی۔ دوسرا شدید متاثرہ ملک پولینڈ ہے اور اس میں سردی سے مرنے والوں کی تعداد 29 ہو گئی ہے۔ رومانیہ میں اب تک 22 افراد موت کا شکار ہو گئے ہیں۔ بلغاریہ اور لٹویا میں دس دس افراد کے ہلاک ہونے کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ سات افراد سربیا میں سردی کی شدت میں جاں بحق ہوئے۔ چیک جمہوریہ میں پانچ اور دو دو افراد یونان کے علاوہ سلوواکیہ بھی سردی کے ہاتھوں مرے۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد مرکزی شہروں سے موصول ہوئی ہے۔ کئی یورپی ملکوں کے دور افتادہ علاقوں میں حالات زیادہ خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ راستے بند اور اطلاعات کا نظام معطل ہو چکا ہے۔
گیس فراہم کرنے والی بڑی روسی فرم گیزپروم نے بیان جاری کیا ہے کہ اس نے یورپ کے لیے گیس کی سپلائی بڑھا دی ہے۔ دوسری جانب سپلائی حاصل کرنے والے کچھ ملکوں کے مطابق گیس کی سپلائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ آسٹریا اور سلوواکیہ میں گیس نظام کے نگران اداروں کے مطابق گیس سپلائی میں تیس فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یورپ کو روسی گیس کی فراہمی کا مرکزی ملک یوکرائن ہے اور اس نے اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ وہ معمول سے زیادہ گیس وصول کر رہا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: افسر اعوان