ہزارہ کمیونٹی پر خود کش حملے کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی ہڑتال
1 جولائی 2013پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 32 ہو گئی ہے جبکہ حملے میں شدید زخمی ہونے والے متعدد افراد کی حالت اب بھی تشویشناک بتائی گئی ہے۔ سانحے کے سوگ میں پیر کو مختلف سیاسی جماعتوں کی کال پر کوئٹہ میں شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی اور شہر کے تمام کاروباری مراکز بند رہے۔ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی شکار ہزارہ کمیونٹی کے رہنماء حسین علی ہزارہ کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مذید کہنا تھا، ''حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، ہم نے پہلے بھی یہ کہا تھا کہ ہمارے لوگ غیر محفوظ ہیں انہیں تحفظ فراہم کیا جائے لیکن حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ نئی حکومت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے۔‘‘
دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ان واقعات نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے دیگر افراد کو بھی شدید تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے لوگ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ان واقعات کو حکومت کی بے حسی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہزارہ برادری کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بچانے کے لیے حکومتی اقدامات کے حوالے سے کوئٹہ میں بلوچستان صوبے کے سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت امن و امان کی بحالی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور ماضی میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تمام حساس علاقوں میں سیکورٹی کے موثر اقدامات کئے گئے ہیں اور انہی اقدامات کی وجہ سے ہزارہ ٹاون میں حملہ کرنے والا خودکش حملہ اور اس امام بارگاہ تک نہیں پہنچ سکا اور لوکل لوگوں کو بھی اس حوالے سے اگاہی فراہم کی جا رہی ہے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔
خیال رہے کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ کمیونٹی کے علاقے ہزارہ ٹاون میں رواں سال فروری میں بھی ایک فروٹ مارکیٹ میں ہونے والے زوردار دھماکے میں بھی سو سے ذائدافراد ہلاک ہوگئے تھے اور صوبے میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے کوئٹہ میں شدت پسندی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد حکومت نے ان واقعات کی تحقیقات کے لئے اعلی پولیس افسران پر مشتمل ایک چھہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ صوبائی حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔