ہالینڈ: عام انتخابات میں کانٹے دار مقابلہ
12 ستمبر 2012پولنگ اسٹیشن مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے سے کھل گئے تھے۔ پارلیمان کے 150رکنی ایوان زیریں کے ارکان کے انتخاب کے لیے بارہ ملین سے زیادہ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کا عمل شب نو بجے اپنے اختتام کو پہنچے گا اور اِس کے کچھ ہی دیر بعد اُن ممکنہ غیر سرکاری نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا، جو پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اکٹھی کی جانے والی آراء کی روشنی میں مرتب کیے جائیں گے۔
ہالینڈ میں اس بار کے انتخابات کا رُخ یورپی یونین کے خلاف پائے جانے والے عوامی جذبات متعین کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی اِس پانچویں بڑی معیشت کے ٹیکس دہندگان جنوبی یورپ کے مقروض ممالک کو دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکجز سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ ان پیکجز کی وجہ سے خود اُنہیں اپنے ہاں بجٹ کی بھاری کٹوتیاں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔
یورپی یونین کے خلاف پائے جانے والے تمام تر جذبات کے باوجود توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ہالینڈ میں ایک بار پھر ایک اعتدال پسند حکومت ہی برسراقتدار آئے گی، یا تو 45 سالہ رُٹے کی قیادت میں اور یا پھر 41 سامسم کی سربراہی میں اور یہ نئی حکومت بھی بچتی اقدامات اور ہالینڈ کے یورپی یونین ہی کا حصہ رہنے کی بھرپور حامی ہو گی۔
منگل کو سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں میں لبرل پارٹی اور لیبر پارٹی دونوں کے لیے 36، 36 نشستوں کی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ جزوی طور پر رُٹے کی لبرل پارٹی کو معمولی سی سبقت حاصل ہے۔ ان جائزوں کے مطابق سخت موقف کے حامل سوشلسٹ نئے ایوانِ زیریں میں تیسرے نمبر پر رہیں گے جبکہ انتہائی دائیں بازو کی تارکین وطن مخالف جماعت کو نشستوں کے اعتبار سے چوتھی پوزیشن حاصل ہو گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ان انتخابات کے بعد بھی مارک رُٹے ہی وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہیں گے کیونکہ وہ اس وقت نہ صرف ملک کے مقبول ترین سیاسدان ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سب سے زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق 12.5 ملین ووٹرز میں سے بیس فیصد نے آخری وقت تک یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے، اس لیے انتخابات کے نتائج غیر متوقع بھی ہو سکتے ہیں۔
اسلام مخالف جماعت فریڈم پارٹی کے گیرٹ ولڈرز کی عوامی حمایت میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اندازہ ہے کہ وہ اپنی کم از کم سات نشستیں دوبارہ نہیں جیت سکیں گے۔ اس بار اُن کی انتخابی مہم میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی بجائے مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہالینڈ کو یورو کرنسی کو خیر باد کہہ دینا چاہیے اور یورپی یونین سے بھی نکل جانا چاہیے۔ کہا جا رہا ہے کہ یورپی یونین کے خلاف تمام تر جذبات کے باوجود وہ لوگوں کو اپنے ان انتہا پسندانہ خیالات کا قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
(aa/aba(reuters