گوشت خوروں کے لیے بُری خبر
12 مارچ 2013سوسیجز، خنزیر کا گوشت اور دیگر تیار شدہ گوشت کم عمری میں موت کے خطرات میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس سلسلے میں یورپ بھرکے نصف ملین افراد کوایک تجزیاتی مطالعے میں شامل کیا گیا، جس کے نتائج میڈیکل جریدے بی ایم سی میں شائع ہوئے ہیں۔
طبی محققین نے اپنی اس تحقیق کے دوران یہ پتہ چلایا کہ ایسے کم عمر افراد میں قلب سے متعلق بیماریوں کے علاوہ کینسر یا سرطان کی شرح بہت زیادہ پائی گئی اور یہ بیماریاں ان کی اموات کا سبب بنیں، جن کی روز مرہ غذا میں تیار شدہ گوشت کی مقدار زیادہ تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سوسیجز یا تیار شدہ گوشت کی دیگر اقسام کی تیاری میں نمک اور کیمیاوی اجزاء کی ملاوٹ بہت زیادہ ہوتی ہے، جو صحت کے لیے نہایت مُضر ہے۔ گوشت کو دیر تک کھانے کے قابل رکھنے کے لیے اس میں نمک اور کیمیاوی اجزاء ملائے جاتے ہیں۔
برطانیہ کی ہارٹ فاؤنڈیشن سے منسلک ماہرین نے بغیر چربی کے گوشت کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔ اس تازہ ترین مطالعاتی جائزے کے لیے 10 یورپی ممالک کے باشندوں کا اوسطاً 13 سال تک مشاہدہ کیا جاتا رہا۔
لائف اسٹائل کا عمل دخل
طبی ماہرین نے اس جائزے کے دوران یہ اندازہ بھی لگایا کہ تیار شُدہ گوشت کھانے والے افراد کے اندر تمباکو نوشی کا رجحان بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں سے زیادہ تر موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں صحت کو نقصان پہنچانے والی چند عادات بھی دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں۔ تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ دیگر مُضر صحت عوامل سے قطع نظر، پروسسڈ میٹ یا تیار شدہ گوشت صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
اس ریسرچ میں شامل ہر 17 میں سے ایک شخص موت کے منہ میں چلا گیا۔ روزانہ 160 گرام تیار شدہ گوشت، یعنی قریب 2 سوسیجز اور خنزیر کے گوشت کا ایک پارچہ کھانے والے افراد کے اندر روزانہ محض 20 گرام تیار شدہ گوشت کھانے والوں کے مقابلے میں کم عمری میں موت کے امکانات 44 فیصد زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے افراد پر 12.7 سال کے عرصے تک ریسرچ کی گئی۔
سوئٹزرلینڈ کی زیورخ یونیورسٹی کی پروفیسر Sabine Rohrmann کا میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کہنا تھا،’گوشت کا زیادہ استعمال، خاص طور سے تیار شدہ گوشت زیادہ مقدار میں کھانے کا تعلق غیر صحت بخش لائف اسٹائل سے ہے۔ تاہم تمباکو نوشی ترک کرنا گوشت کے استعمال میں کمی سے زیادہ اہم ہے۔ بہر صورت لوگوں کو اپنی غذا میں گوشت کا استعمال کم کرنا چاہیے‘۔
پروفیسر Sabine Rohrmann کا کہنا ہے کہ تیار شدہ گوشت کے استعمال اور کم عمری میں اموات کے باہمی تعلق سے متعلق اس تازہ ترین تحقیق میں جتنے افراد کو شامل کیا گیا تھا، اگر ان میں سے ہر ایک نے اپنی روز انہ غذا میں پروسسڈ یا تیار شدہ گوشت کی مقدار 20 گرام تک محدود رکھی ہوتی تو کم عمری کی اموات کی شرح میں 3 فیصد کمی ہو سکتی تھی۔
برطانوی حکومت اپنے عوام کو مشورہ دے رہی ہے کہ وہ روزانہ 70 گرام سے زیادہ ریڈ میٹ یا پروسسڈ میٹ کھانے سے پرہیز کریں۔ تاہم اس مطالعاتی جائزے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ تھوڑی مقدار میں ریڈ میٹ یا پروسسڈ میٹ کھانے کے فوائد بھی ہیں۔
ریڈ میٹ دراصل گائے، بھینس، بچھڑے اور گھوڑے کے گوشت کو کہتے ہیں جبکہ مرغی اور دیگر پرندوں کے گوشت کو وائٹ میٹ کہا جاتا ہے۔
غذائی ماہرین کی برطانوی ایسوسی ایشن سے منسلک ماہر اُرسلا آرنس نے اپنے ایک ریڈیو پروگرام میں حال ہی میں کہا،’ تازہ گوشت کو قیمہ بنانے کی مشین سے گزارنے سے یہ گوشت پروسسڈ یا تیار شدہ نہیں ہو جاتا۔ گوشت کی شیلف لائف بڑھانے یا اس کا ذائقہ بدلنے کے لیے یا اسے بہت زیادہ مزیدار بنانے کے لیے اس میں جن اجزاء کی ملاوٹ کی جاتی ہے، وہ صحت کے لیے مُضر ہوتے ہیں‘۔
تاہم اُرسلا آرنس کا کہنا ہے کہ اچھی کوالٹی کا تازہ گوشت اگر روایتی مصالحہ جات کے ساتھ گھر میں تیار کیا جائے تو یہ پروسسڈ گوشت نہیں ہوتا اور صحت پر اس کے مُضر اثرات بھی مرتب نہیں ہوتے۔
km/ aa(Agencies)