کیوبن ٹوئٹر، بدامنی پھیلانے کی ’خفیہ امریکی کوشش‘
3 اپریل 2014واشنگٹن حکومت نے مبینہ طور پر یہ کام ان خفیہ کمپنیوں کے ذریعے کیا جنہیں مالی وسائل غیر ملکی بینکوں کے ذریعے مہیا کیے گئے۔
واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ منصوبہ دو سال سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہا اور اسے استعمال کرنے والے کیوبا کے صارفین کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کیوبا میں حکومت کے انٹرنیٹ پر کنٹرول کو ناکام بناتے ہوئے ایک ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم تیار کیا گیا جو بہت جدید نہیں تھا۔ مقصد پہلے کیوبا میں زیادہ تر نوجوان صارفین کو اس پلیٹ فارم کے استعمال اور پھر انہیں سیاسی انحراف کی ترغیب دینا تھا۔ اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ہزاروں صارفین یہ نہیں جانتے تھے کہ اسے ایک ایسے امریکی ادارے نے تیار کیا ہے جس کے امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ان صارفین کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ پروگرام کے ذریعے امریکی کنٹریکٹر ان کا ذاتی ڈیٹا جمع کر رہے تھے جو بعد میں ممکنہ طور پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ واضح نہیں کہ آیا امریکی قانون کے تحت یہ پروگرام قانونی تھا یا غیر قانونی۔ امریکی قوانین کے تحت ایسے کسی خفیہ پروگرام کے لیے صدر کی تحریری اجازت حاصل کرنا اور کانگریس کو اطلاع دینا لازمی ہوتا۔
بین الاقوامی ترقی کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ USAID کے حکام نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ ’کیوبن ٹوئٹر‘ نامی پروگرام کی منظوری کس نے دی تھی اور آیا وائٹ ہاؤس کو بھی اس کی خبر تھی یا نہیں۔ اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے جب کیوبا کی حکومت سے رابطہ کیا تو اس نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
نیوز ایجنسی اے پی نے اس بارے میں جتنی معلومات حاصل کی ہیں ان کے تحت یو ایس ایڈ کے یہ دعوے غیر شفاف دکھائی دیتے ہیں کہ یہ ادارہ امریکی حکومت کے کسی خفیہ پروگرام میں شامل نہیں ہوتا۔ ’کیوبن ٹوئٹر‘ کے لیے کمپنیاں اسپین اور Cayman Islands میں قائم کی گئیں تاکہ یہ پتہ نہ چلے کہ سرمایہ کہاں سے آ رہا ہے۔
اس پراجیکٹ میں شریک Mobile Accord نامی کمپنی کے سن 2010 کے ایک میمو میں لکھا گیا تھا، ’’اس بارے میں قطعی طور پر کوئی ذکر نہیں کیا جائے گا کہ اس میں امریکی حکومت شامل ہے۔‘‘
کیوبا میں اس منصوبے کو 2009 میں ایک امریکی کنٹریکٹر کی گرفتاری کے بعد لانچ کیا گیا تھا۔ اسے ZunZuneo کا نام دیا گیا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس خفیہ پراجیکٹ کے بارے میں جو معلومات حاصل کیں وہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں۔
اس منصوبے پر اندازہً جو 1.6 ملین ڈالر خرچ کیے گئے، وہ ظاہری طور پر پاکستان میں ایک غیر مخصوص منصوبے کے لیے رکھے گئے تھے۔