کینیڈا میں غیرملکی ورکرز کے ’خواب بکھر جائیں گے‘
2 مئی 2014ایسے ہی افراد میں ایک فلپائن کی خاتون شہری بوگن وِگن ہے۔ وہ ہوٹل میں صفائی کرنے سے لے کر ہر طرح کی سخت مشقت کا بوجھ جھیل لیتی ہے۔ تاہم غیرملکی ورکرز کے پروگرام کی مخالفت نے اس کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اسے خدشہ ہے کہ وہ زیادہ دیر تک فلپائن میں موجود اپنے خاندان کی مالی مدد نہیں کر پائے گی۔
وِگن حکومت کے اس پروگرام کے تحت کینیڈا پہنچنے والے چار لاکھ کارکنوں میں سے ایک ہے۔ یہ پروگرام ایسی ملازمتوں کے لیے ترتیب دیا گیا تھا جن کے لیے کینیڈا میں روزگار کے اہل شہری دستیاب نہیں ہیں۔ یہ پروگرام آجروں میں انتہائی مقبول رہا ہے۔ ابتدا میں اس کا مقصد ’ریسورس انڈسٹری‘ کو ورک فورس مہیا کرنا تھا لیکن بعد ازاں اس کا دائرہ نچلے درجے کی نوکریوں تک پھیل گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام مقامی شہریوں کو روزگار سے محروم کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ میں ایسی رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ بعض ریستورانوں نے ملازمتوں کے لیے کینیڈا کے اہل شہریوں پر غیرملکیوں کو ترجیح دی۔ اس کے ردِ عمل میں گزشتہ ہفتے قدامت پسند حکومت نے فُوڈ سروس انڈسٹری کو عارضی بنیادوں پر غیرملکی ورکرز بھرتی کرنے سے روک دیا۔
وزیر روزگار جیسن کینی نے تسلیم کیا کہ اس پروگرام کا غلط استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ برس سے ہی ضوابط سخت بنانا شروع کر دیے گئے تھے اور مزید تبدیلیاں کی جائیں گی۔
اس صورتِ حال میں وِگن جیسے مزدُور پھنس کر رہ گئے جو عارضی ورکرز کے پروگرام کی بنیاد پر کینیڈا میں مستقل رہائش کا خواب لیے وہاں پہنچے تھے۔ یہ پروگرام خصوصی طور پر عارضی بنیادوں کے لیے ہے تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بعض لوگوں کے لیے طویل قیام بھی ممکن ہوا ہے۔ تاہم پروگرام کی مخالفت ختم کرنے کے لیے جاری حکومتی اقدامات کے باعث اب ایسے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب بہت سے آجر بھی پروگرام کی مخالفت پر پریشان ہیں۔ ان کے خیال میں اس پروگرام کے تحت انہیں محنتی اور قابل بھروسہ ملازمین ملے ہیں جن کے نوکری چھوڑ دینے کا خطرہ بھی کم رہتا ہے۔ روئٹرز نے ایک انڈسٹری گروپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ ورکر رات گئے تک کام کرنے پر بھی تیار رہتے ہیں۔
کینیڈا میں بے روزگاری کی شرح 6.9 فیصد ہے۔ متعدد آجروں کو شکایت ہے کہ ملک میں باصلاحیت یا کام کرنے پر تیار ورک فورس کی قلت ہے، بالخصوص کان کنی اور توانائی کی شعبوں میں۔
نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 13.6فیصد ہے۔ اس پروگرام کے ناقدین کا ماننا ہے کہ نچلی سطح کی نوکریوں کے لیے غیرملکی ورکرز کی بھرتی سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور تنخواہوں کی سطح بھی کم ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سے آجروں کو انتہائی سستے، کسی بھی حال میں کام کرنے پر تیار، زیادتیاں سہنے والے اور مستقل رہائش یا شہریت کے حصول سے قاصر ملازمین تک رسائی ملتی ہے۔
ایمیگریشن امور کی وکیل وینیسا روٹلی یہ بات تسلیم نہیں کرتیں کہ عارضی غیرملکی ورکرز کے پروگرام کے نتیجے میں شہریوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’میں نہیں سمجھتی کہ اس بات میں کوئی حقیقت ہے۔ ہماری پرورش اس تمنا کے ساتھ نہیں ہوئی کہ ہم ہوٹلوں کے کمرے صاف کریں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو کینیڈا میں پہلے سے موجود غیرملکیوں پر توجہ دینی چاہیے جو مخصوص پروگرام کے خاتمے پر ملک میں غیرقانونی قیام پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ تارکین وطن کے لیے کام کرنے والے کئی گروپ حکومت پر ایسا نظام وضع کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں جس کے تحت ایسے غیرملکی مستقل رہائش اختیار کر سکیں۔