کیمرون کی سری لنکا کو بین الاقوامی تحقیقات کی ’دھمکی‘
16 نومبر 2013کیمرون ہفتے کے روز سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جہاں وہ جمعہ پندرہ نومبر سے جاری اُس سہ روزہ مشترکہ سربراہ کانفرنس میں شریک ہیں، جو ہر دو سال بعد دولت مشترکہ کے کسی دوسرے رکن ملک میں منعقد ہوتی ہے۔
عام طور پر اس کانفرنس میں زیادہ ہنگامہ دیکھنے میں نہیں آتا تاہم اس بار اس اجتماع میں سری لنکا کی خانہ جنگی کے آخری ایام کے دوران روا رکھے جانے والے مظالم پر تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور کیمرون سری لنکا کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے سب سے بڑے ناقد بن کر سامنے آئے ہیں۔
آج کیمرون نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’کچھ بہت ہی اہم سوالات ہیں، جن کا جواب دیا جانا چاہیے۔ ان سوالوں کا تعلق آج کے سری لنکا میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے ہے۔ ان کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ اتنے زیادہ لوگ لاپتہ ہوئے ہیں اور يہ ایک آزادانہ پریس کے لیے مناسب قواعد و ضوابط نہیں ہیں۔ ان سوالات کا تعلق اس بات سے بھی ہے کہ اتنی طویل خانہ جنگی کیسے ختم ہوئی اور وہ سارے ہولناک مناظر، جو ہم نے ٹیلی وژن پر دیکھے کہ کیسے جنگ کے اختتام پر ہزاروں بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا۔‘‘
کیمرون کا مزید کہنا تھا:’’میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر مارچ تک تحقیقات مکمل نہ ہوئیں تو میں اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کروں گا اور اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے ساتھ مل کر اس بات کی وکالت کروں گا کہ اس معاملے کی مکمل، قابل اعتبار اور آزادانہ بین ا لاقوامی تحقیقات کروائی جائیں۔‘‘
واضح رہے کہ آئندہ برس مارچ ہی میں اقوام متحدہ کا حقوقِ انسانی کمیشن سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اپنا اگلا اجلاس منعقد کرنے والا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک پینل کے اندازوں کے مطابق 2009ء میں خانہ جنگی کے اختتام پر کوئی تین لاکھ شہری ایک تنگ سی ساحلی پٹی پر پھنس کر رہ گئے تھے اور یہ کہ غالباً چالیس ہزار نہتے شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ تشدد دونوں فریقوں کی جانب سے روا رکھا گیا تھا لیکن یہ کہ زیادہ تر ہلاکتیں حکومتی فورسز کی بمباری سے ہوئیں۔
سری لنکا کی حکومت، جسے صدر مہندا راجاپاکسے اور اُن کے خاندان کے ارکان چلا رہے ہیں، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتی اور اُس کا کہنا یہ ہے کہ کہیں کم تعداد میں شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ کولمبو حکومت کا موقف یہ بھی ہے کہ اُس کے ہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر کی جانے والی تنقید اُن کے معاملات میں بیرونی مداخلت کے مترادف ہے۔ باسیل راجاپاکسے نے، جو صدر مہندا راجاپاکسے کے بھائیوں میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کے وزیر بھی ہیں، بین الاقوامی تحقیقات کے امکان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا:’’ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ظاہر ہے، ہم اس پر اعتراض کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ جس جنگی حکمتِ عملی کے تحت 2009ء میں تامل باغیوں کی علیحدگی پسند تحریک کو کچل دیا گیا تھا، وہ بھی جزوی طور پر سیکرٹری دفاع گوٹابایا راجاپاکسے کی وضع کردہ تھی، جو بھی صدر مہندا راجاپاکسے کے بھائی ہیں۔
خانہ جنگی ختم ہونے کے چار سال بعد بھی تامل اکثریتی شمالی علاقوں میں فوج کی بھاری نفری تعینات ہے اور تامل آبادی کے کئی ایک ارکان یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ملک دشمنوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک روز قبل برطانوی وزیر اعظم کیمرون نے خود شمالی علاقوں کا دورہ کیا اور موقع پر جا کر حالات جاننے کی کوشش کی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سری لنکا میں حکومت کے مخالفین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور صحافیوں اور حقوقِ انسانی کے کارکنوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
53 رکنی کامن ویلتھ یا دولت مشترکہ کی سربراہ ملکہ الزبتھ ہیں اور اس تنظیم میں زیادہ تر وہ ممالک شامل ہیں، جو ماضی میں برطانیہ کی نو آبادیاں رہ چکے ہیں۔ سر ی لنکا میں حقوقِ انسانی کی پامالیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ہی کینیڈا، بھارت اور ماریشئش نے پہلے ہی اس کانفرنس میں اپنی شرکت منسوخ کر دی تھی۔ کولمبو حکومت کا اندازہ تھا کہ اس اجتماع میں 37 رکن ممالک شریک ہوں گے تاہم جب کانفرنس شروع ہوئی تو اس میں صرف 26 ارکان شریک ہوئے۔
خود صدر مہندا راجاپاکسے نے اس کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر یہ کہا تھا کہ خانہ جنگی ختم کر کے اُنہوں نے جانیں بچائی ہیں اور یہ کہ دولت مشترکہ کو کوئی ایسی تنظیم نہیں بننا چاہیے، جو ’دو طرفہ ایجنڈے‘ کی بناء پر سزائیں دیتی ہو۔
جمعے کے روز کیمرون کے ساتھ ایک ملاقات میں صدر راجاپاکسے نے کہا تھا کہ ابھی خانہ جنگی کو ختم ہوئے صرف چار ہی سال ہوئے ہیں اور تمام مسائل پر قابو پانے میں ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔
سری لنکا کی حکومت جنگ زدہ شمالی علاقوں میں تیزی سے اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور سڑکیں وغیرہ تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اس سال ستمبر میں شمالی صوبے میں ہونے والے انتخابات میں ایک ایسی تامل اپوزیشن جماعت نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی، جو ماضی میں تامل ٹائیگرز سے قربت رکھتی تھی۔