کیا یورپ میں بھی امریکا کی طرح پریشر گروپ قائم ہو سکتے ہیں؟
12 نومبر 2013حقیقت میں ویسا ہی ہوا، جس کی بہت کم لوگوں کو امید تھی۔ ٹی پارٹی میں شامل رجعت پسند سیاستدانوں کے ایک گروپ نے سپر پاور امریکا کو بجٹ معاملے میں کس طرح بحران میں دھکیلا۔ امریکی صدر باراک اوباما کی غیر معمولی کوششوں کی وجہ سے ہی سرکاری اداروں کی جزوی بندش ختم ہو سکی اور امریکا دیوالیہ ہونے سے بچا۔ کچھ یورپی حلقوں کا خیال ہے کہ امریکا تو ایک دوسرا براعظم ہے اور فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ یورپ میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ لیکن یہ سوچ غلط ثابت ہو سکتی ہےکیونکہ یورپی پارلیمان میں رجعت پسند قوتیں مستقبل میں سیاسی عمل کی راہ رکاوٹیں حائل کر سکتی ہیں۔ اگر یورپی یونین اور یورو کرنسی کی مخالف دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں 2014ء میں ہونے والے یورپی انتخابات میں کامیاب ہو جاتی ہیں، تو اس طرح یورپی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی سوچ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ سیاستدان وہاں مختلف دھڑے بنا کر یورپی سیاست پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
گرین پارٹی کی رکن فرانسسکا کیلر نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یارلیمان میں رجعت پسند گروپ موجود ہیں۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں اکثر ایسا دیکھنے کو ملے گا، جب قانون سازی کے عمل میں رکاوٹیں ڈالی جائیں گی اور حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔‘‘
برسلز میں یہ سوچ نہیں پائی جاتی کہ یورپی یونین میں کوئی گروپ اس طرح معاملات میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے یا حکومتوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ تاہم دوسری جانب یہ خوف بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ یورپ میں شٹر ڈاؤں کی صورت میں پارلیمانی معاملات اور قانون سازی کے اقدامات شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں خصوصی طور پر دائیں بازو کے سیاستدان کافی متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ فرانس اور ہالینڈ میں یورپی یونین مخالف سیاستدان لا پین اور گیئرٹ ولڈرز مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ یورپی انتخابات کے حوالے سے یہ دونوں مل کر حکمت عملی بنائیں گے۔ فرانسسکا کیلر کے بقول دائیں بازو کے سیاستدان مہاجرین کے حوالے سے یورپی سیاست پر توجہ مرکوز کریں گے۔’’ اگر ہم لامپے ڈوسا میں ہونے والے واقعے کے نتائج سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں اور اگر ہم ہجرت کے قانونی طریقوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو اس کے لیے تیار کرنا ہو گا‘‘۔
متعدد یورپی رہنما اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ اطالوی وزیراعظم اینرینکا لیٹا نے اخبار نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عوامیت پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان آج کل یورپ کے سماجی اور سیاسی شعبے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ مئی 2014ء کے انتخابات کے بعد یورپ کی اب تک کی مخالف ترین پارلیمان قائم ہو جائے گی۔ لیٹا کے بقول اس ڈراؤنی صورتحال سے بچنے کے لیے یورپی پارلیمان کے کم از کم ستر فیصد ارکان ایسے ہونے چاہیں، جو یورپی یونین کے حق میں ہوں۔