کیا پاکستان ہاکی کے اچھے دن آنے والے ہیں ؟
29 اپریل 2013قاسم ضیاء پاکستان ہاکی فیڈریشن کی 65 سالہ تاریخ کے بائیسویں صدر ہیں۔ اپنے ساڑھے چار سالہ دور کے بارے میں ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں قاسم ضیاء نے کہا، ’’جب میں نے عہدہ سنبھالا تھا تو ملک میں نئے کھلاڑیوں کو سامنے لانے کا کوئی طریقہ کار رائج نہ تھا ہم نے اکیڈمیز قائم کیں، جن کے نتیجے میں اب جونیئر اور سینئر دونوں ٹیموں کو کھیپ ملنا شروع ہو گئی ہے۔ حال ہی میں جونیئر ٹیم کا یوتھ اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنا ہمارے اکیڈمی پروگرام کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم کھوئے ہوے مقام تک پہنچ جائیں، جس کے ہم پہلے ہی بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘‘۔
قاسم ضیاء، جنہوں نے اکتوبر دوہزار آٹھ میں ہاکی فیڈریشن کی کمان سنبھالی تھی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں پاکستانی ٹیم دنیا میں نویں اور ایشیا میں چھٹے نمبر پر تھی اور اب یہ ایشیا میں نمبر ون ہے۔ بیس برس بعد ایشین گیمز جیتی جبکہ میلبورن چیمپئنز ٹرافی میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا، جس کے بعد آج پاکستان ہاکی کی عالمی رینکنگ پانچ ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میری کوشش ہے کہ پاکستانی ٹیم دنیا کی چار صف اول کی ٹیموں میں ہر وقت نظر آئے کیونکہ جب آپ چیمپئنز ٹرافی جیسے بڑے ٹورنامنٹس مسلسل کھیلتے رہیں تو قسمت کی یاوری پر ٹائٹل بھی جیت سکتے ہیں‘‘۔
ممبئی عالمی کپ اور لاس اینجلس اولمپکس کے گولڈ میڈلسٹ قاسم ضیاء نے مزید بتایا کہ ان کے لیے سب سے بڑا ٹاسک مالی مشکلات سے نمٹنے کا تھا کیونکہ ہاکی فیڈریشن کو اسپورٹس بورڈ کی جانب سے سالانہ صرف ساٹھ لاکھ روپے کی گرانٹ ملتی ہے جبکہ سینئر اور جونیئر ٹیم کے غیر ملکی دوروں اور انتظامی امور کے لیے ہر سال پچیس کروڑ درکار ہوتے ہیں۔ ان اکا کہنا تھا، ’’میں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کی کوشش کی، جس میں کامیابی ملی‘‘۔
اگلے برس جون میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ہونیوالے تیرویں ہاکی ورلڈ کپ کی تیاریوں کی بابت پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ٹیم کو رواں برس ورلڈ راؤنڈ تھری اور ایشیا کپ میں شرکت کرنا ہے تاہم ٹیم میں تاحال کچھ خامیاں ہیں، جنہیں دور کرکے اور لندن اولمپکس سے سبق سکیھتے ہوئے عالمی کپ میں نمایاں پوزیشن حاصل کریں گے۔
عالمی ہاکی کی تیز ترین ہیٹرک کرنے والے قاسم ضیاء کے مطابق اختر رسول کے دوبارہ سیاست میں آنے کے بعد اب قومی ٹیم کے کوچ کی تبدیلی بھی زیرغور ہے۔
قاسم ضیاء نے بتایا، ’’ہماری خواہش ہے کہ اختر رسول دوبارہ رکن اسمبلی منتخب ہوں مگر الیکشن جیتنے کے بعد ان کے لیے پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنا آسان نہ ہوگا ۔ میں خود ایم پی اے رہا ہوں اور مجھے علم ہے کہ اسمبلی میں آنے کے بعد آپ ٹیم کے ساتھ فل ٹائم کام نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں پی ایچ ایف کی اگلی بورڈ میٹنگ میں ٹیم کے کوچ کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑے گا‘‘۔
سہیل عباس اور ریحان بٹ کے بارے میں قاسم ضیاء کا کہنا تھا، ’’دونوں اپنا عروج گزار چکے ہیں، دونوں نے ماڈرن ہاکی کھیلی ہے، ہماری خواہش ہے کہ وہ اب کوچنگ میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ ہاں اگر ٹیم مینجمنٹ کسی کھلاڑی کو بلانا چاہیے تو یہ اس کی صوابدید ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ سلیکشن میں با اختیار ہے۔
بھارتی ٹیم کے رواں ماہ دورہ پاکستان سے انکار کے بعد پیدا ہونیوالے تعطل کے بارے میں قاسم ضیاء کا کہنا تھا، ’’دونوں ملکوں کی فیڈریشنز نے پاک بھارت سیریز کی بحالی کی بھر پور کوشش کی مگر سیاسی حالات کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا ہاں البتہ اب بھی یہ سیریز موخر ہوئی ہے منسوخ نہیں۔ قاسم ضیاء کے مطابق ایف آئی ایچ کے کسی بھی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے پاکستانی ٹیم اب بھی بھارت جانے کی پابند ہے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد