یونانی مورخ تھوسی ڈیڈیز (460 ق م، 400 ق م) نے اپنی کتاب 'پبلوپونییس جنگ‘ میں لکھا ہے کہ تاریخ ایک ہی دائرے میں گردِش کرتی ہے کیونکہ انسانی فطرت تبدیل نہیں ہوتی ہے، اس لیے اُس کا ہر دور میں سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل پر یکساں ردعمل ظاہر ہوتا ہے۔
اگر تھوسی ڈیڈیز (Thucydides) کی اِس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر تاریخ کے پاس سکھانے کے لیے کچھ نہیں رہتا ہے۔ ایک ہی جیسے واقعات بار بار آتے ہیں اور تاریخی عمل کو تبدیل نہ کرنے پر محض واقعات کا علم کسی ذہنی ترقی کا باعث نہیں ہوتا ہے۔
اس کی مثال سن 1947 کے بعد سے پاکستان کی ہے، جو ایک ہی دائرے میں محوِ گردش ہے۔ اس وجہ سے اِس کے تاریخی عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ رونما ہونے والے واقعات میں کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن اُن کا عمل ماضی اور حال میں یکسانیت کے ساتھ جاری رہتا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ تاریخ میں عام لوگ سیاسی تحریکوں کا باعث ہوتے ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ تاریخ کو محدود گردش سے نکال کر معاشرے میں تبدیلی لائیں۔ لیکن جب بھی قدیم روایات اور اداروں کو توڑا جاتا ہے تو تبدیلی کے نتیجے میں خونریزی اور قتلِ عام ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک تصادم کے نتیجے میں اُبھرتی ہے۔ قدامت پرست قوتیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ظُلم اور استبداد کا استعمال کرتیں ہیں کیونکہ قدیم نظام میں، جن حکمراں طبقوں کو مراعات حاصل ہوتی ہیں، وہ اُنہیں چھوڑنے پر تیار نہیں ہوہتے ہیں۔
دوسری جانب جب عام لوگ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو وہ پُراَمن نہیں رہتے۔ دونوں قوتوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں حکمراں طبقے اپنے مخالفین کو کچلنے کی ہر ممکن کوششں کرتے ہیں۔ قید و بند کی سزائیں اور اذیتیں دینا اُن کی پالیسی ہوتی ہے۔ اگر سیاسی تحریکیں کامیاب ہو جاتیں ہیں اور ایک نئے نظام کی بنیاد ڈالتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک نیا حکمراں طبقہ پیدا جاتا ہے اور معاشرہ ایک بار پھر ایک طاقتور اور محروم طبقوں میں تقسیم ہو کر روایتی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
تاریخ میں یہ تبدیلی بار بار آتی ہے، عام لوگ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں مگر جب اقتدار حکمراں طبقے میں آ جاتا ہے تو وہ بھی استعمال کرتے ہوئے عام لوگوں کو مراعات سے محروم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سیاسی تبدیلیاں عام لوگوں کے لیے کسی تبدیلی کا باعث نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب بنیادی طور پر اقتدار عوام دُشمن ہو تو تبدیلی کے لیے قربانی دینا، جدوجہد کرنا اور اذیتیں برداشت کرنا کہاں تک درست ہے؟ کیونکہ جب تک اقتدار کے درمیان توازن نہیں ہو گا۔ اُس وقت تک محض حکمراں طبقے کی تبدیلی معاشرے کو پسماندہ ہی رکھے گی۔
جب بھی حکمراں طبقہ ریاست کے تمام ذرائع کو اپنے تسلسل میں لے لیتا ہے تو عوام کی اکثریت بے روزگاری، غربت اور افلاس میں مبتلا ہو کر اپنی تمام توانائی کھو دیتی ہے۔ جب عوام میں مزاحمت کی طاقت نہ رہے تو حکمراں طبقوں کو مواقع مل جاتے ہیں ہ وہ ریاستی اداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں۔
اس صورتحال میں جب کہ لوگوں کی اکثریت بدحالی کا شکار ہوتی ہیں تو سیاستدان اور اُن کی پارٹیاں عوامی مجمعے کو خام مال کی طرح استعمال کرتے ہوئے اُن کو مظاہروں اور جلوسوں میں استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ موجودہ دور میں پاکستان اور بھارت میں ہو رہا ہے۔
سیاستدان محروم طبقوں میں مذہبی اور سیاسی جذبات کو اُبھار کر اُنہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا پاکستان میں دھرنے کی روایت عام ہو گئی ہے۔ سیاسی اور مذہبی رہنما محروم لوگوں کی فوج کو لے کر شہروں میں دھرنے دیتے ہیں اور اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔ اِن دھرنوں اور گھیراؤ کے واقعات کے نتیجے میں سیاسی اور مذہبی رہنما حکمراں طبقوں سے سمجھوتہ کر کے عوامی ہجوم کو اُن کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ان دھرنوں سے عام لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ یہی صورتحال بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے پیدا کر رکھی ہے۔ اگرچہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جمہوری نظام اُن کے مسائل کا حل ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان جیسے مُلکوں میں جمہوریت ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جمہوریت کے نتیجے میں اقتدار جاگیرداروں، قبائلی سرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط میں چلا جاتا ہے اور عوام تماشائی بن کر سیاست کے اُتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہیں۔
جب تبدیلی کے نتیجے میں عام لوگوں کی حالت نہیں بدلتی ہے تو مزاحمت کی تمام تحریکیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ مایوسی کے اِس ماحول میں لوگ یہ اُمید کرنے لگتے ہیں کہ معاشرے میں عدل و اںصاف کو قائم کرنے کے لیے کوئی مسیح یا مہدی آئے گا۔ جو اِنہیں اس ظُلم و ستم سے نجات دِلائے گا۔ اسی اُمید میں کئی نسلیں اپنی زندگی گزار کر چلی جاتی ہیں اور عام لوگ لاعلمی کی حالت میں رہتے ہوئے بدلتے ہوئے حکمراں طبقوں کے اقتدار کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔
ادارت: عاطف بلوچ
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔