کیا بھارت اور پاکستان پانی کے تنازعے سے آگے بڑھ سکتے ہیں؟
28 اگست 2025سندھ، جہلم اور چناب کے دریا، جو بھارت اور پاکستان کو جوڑتے ہیں، کئی ماہ سے دونوں حریف ممالک کے درمیان ایک سست رفتار لیکن تلخ تنازعے کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اپریل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر ہلاکت خیز حملے کے بعد بھارت نے اعلان کیا کہ پاکستان کے ساتھ واٹر شیئرنگ کا ایک تاریخی معاہدہ ''فوری طور پر معطل‘‘ رہے گا، جب تک کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کو ''مستند اور ناقابل واپسی طور پر ترک‘‘ نہ کرے۔
نئی دہلی نے مئی میں پاکستان کے ساتھ جھڑپوں کے خاتمے کے بعد بھی اس موقف کو دہرایا۔ رواں ماہ کے شروع میں ایک اہم تقریر کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ''خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہ سکتے۔‘‘
تاہم یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ بھارت کی جانب سے 1960ء کے سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کی معطلی ابھی نظریاتی ہے۔ تمام دستیاب رپورٹس کے مطابق بھارت نے پاکستان میں پانی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام نہیں کیا، جس کے پاکستانی کھیتوں یا پاور پلانٹس کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد نے بھی خبردار کیا ہے کہ ایسی پابندیاں ''جنگی اقدام‘‘ تصور کی جائیں گی۔
بھارت کا عدالتی دائرہ اختیار اور قانونی حیثیت پر سوال
حال ہی میں عدالت برائے مستقل ثالثی (پی سی اے) نے سندھ طاس معاہدے کے کلیدی حصوں کی تشریح پر فیصلہ دیا، جس میں عمومی طور پر بھارت کو ہدایت کی گئی کہ وہ سوائے خاص طور پر بیان کردہ حالات کے پاکستان کے غیر محدود استعمال کے لیے دریاؤں کو ''بہنے دے‘‘۔
لیکن بھارت نے عدالت کے اس ''اضافی فیصلے‘‘ کو غیر متعلق قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ''بھارت نے کبھی بھی نام نہاد ثالثی عدالت کی قانونی حیثیت یا صلاحیت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے فیصلے دائرہ اختیار سے خالی، قانونی حیثیت سے عاری اور بھارت کے پانی کے استعمال کے حقوق پر کوئی اثر نہیں رکھتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''بھارت عدالت کے فیصلے کے لیے پیش کیے گئے پاکستان کے منتخب کردہ اور گمراہ کن حوالوں کو بھی واضح طور پر مسترد کرتا ہے۔‘‘
کوئی پیش رفت 'فی الحال مشکل دکھائی دیتی ہے‘
ماہرین خارجہ پالیسی اور ماہرین تعلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی رابطے منجمد ہونے کی وجہ سے یہ تنازعہ ایک تعطل کا شکار ہے۔ منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹڈیز کے سینئر فیلو اتم کمار سنہا نے کہا کہ یہ تنازعہ ''وسیع تر ایشیائی ہائیڈرو پالیٹکس محور‘‘ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
سنہا کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''پاکستان اس فیصلے کو عالمی سطح پر اٹھائے گا، اپنی واٹر سکیورٹی کو اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ سے لے کر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) تک کے فورمز پر اسے استعمال کرے گا۔ دوسری جانب بھارت اصرار کرے گا کہ اس فیصلے کا اس کی خودمختاری پر کوئی اثر نہیں اور وہ مغربی دریاؤں پر اپنے ہائیڈرو پاور اور ایریگیشن انفراسٹرکچر کو آگے بڑھائے گا۔
سنہا، جو سندھ بیسن میں پانی کی تقسیم کے جغرافیائی سیاسی پہلوؤں پر کتاب ''ٹرائل بائی واٹر‘‘ کے مصنف بھی ہیں، نے نشاندہی کی کہ ڈیموں اور گرڈز پر دونوں ممالک کا آپس میں اتفاق عدالتی فیصلوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''عدالتوں کے 'بے بس‘ ہونے اور سندھ طاس معاہدے کے معطل ہونے کے ساتھ، قانونی فورمز کے باہر تکنیکی حل ہی واحد راستہ بچتا ہیں۔ لیکن سیاسی مذاکرات کے بغیر یہ پیش رفت فی الحال مشکل دکھائی دیتی ہے۔‘‘
ڈیلٹا کی موت: دریائے سندھ سکڑتا اور ڈوبتا جا رہا ہے
انہوں نے مزید بتایا، ''لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو سرحد پار دہشت گردی سے پاک ماحول بنانا ہو گا اور قابل اعتماد شواہد کے ساتھ یہ ظاہر کرنا ہو گا کہ ایسی سرگرمیوں کو مؤثر طریقے سے روک دیا گیا ہے۔‘‘
بھارت پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئے طریقے اختیار کر سکتا ہے
پاکستان میں سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ کا خیال ہے کہ بھارت آنے والے برسوں میں پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ بساریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگلے پانچ برسوں میں، بھارت مغربی دریاؤں پر نہروں اور ذخائر کو شامل کرنے کے لیے ایک تیز تر ترقیاتی پروگرام شروع کر سکتا ہے تاکہ پاکستان پر مضبوط اثر و رسوخ حاصل کیا جا سکے۔‘‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ معاہدے کے تحت حالات میں نمایاں تبدیلیوں، جیسے کہ ڈیم بنانے کی تکنیکی ترقی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے معاہدے پر نظرثانی کی جا سکتی ہے یا خاتمہ ممکن ہے۔ اس سفارت کار کا مزید کہنا تھا، ''اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں پانی کا بہاؤ پاکستان سے سرحد پار دہشت گردی کی حد تک قریب سے منسلک ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی پر ایک بڑا سمجھوتہ پانی کی تقسیم پر ایک نئے بڑے سمجھوتے کا باعث بن سکتا ہے، جو 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کا ایک نظرثانی شدہ معاہدہ بن سکتا ہے۔‘‘
پاکستان کے لیے سندھ، جہلم اور چناب اہم
جنوبی ایشیا کی معیشتوں اور ترقیاتی معیشتوں کے ماہر مہندرا لاما نے دریاؤں کے بارے میں فوجی زبان استعمال کرنے کے خلاف خبردار کیا۔ لاما کا کہنا تھا، ''پانی کے وسائل مشترکہ قدرتی وسائل ہیں، جن کے لیے تعاون پر مبنی انتظام اور سفارت کاری کی ضرورت ہے نہ کہ فوجی تصادم کے۔‘‘
پاکستان کے لاکھوں لوگ پینے کے پانی، کاشتکاری اور روزمرہ زندگی کے لیے سندھ، جہلم اور چناب کے دریاؤں پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ دریا خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں اہم ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں، جن کی زرعی پیداوار ملک کی زیادہ تر آبادی کو کھانا فراہم کرتی ہے اور دیہی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''ان سرحد پار دریاؤں کے انتظام میں گفت و شنید، اعتماد کی بحالی، سندھ طاس جیسے قانونی معاہدوں اور تعاون پر مبنی ڈھانچوں پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘
بیک چینل ڈپلومیسی کے مواقع
دفاعی ماہر سنہا، جنہوں نے اس مسئلے کا قریب سے مطالعہ کیا ہے، نے غیر رسمی بیک چینل رابطوں کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کے تین قابل عمل اختیارات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا، ''ڈیٹا تعاون کی محدود بحالی، منصوبہ جاتی ڈیزائن آڈٹس اور آپریشنل تفہیم کے ذریعے بیک چینل ڈپلومیسی، جہاں بھارت اور پاکستان موسمیاتی حدود پر اتفاق کر سکتے ہیں۔‘‘
سنہا کا مزید کہنا تھا، ''ایسے عملی اقدامات کے بغیر نہ صرف فوجی کشیدگی کا خطرہ ہے، جو اس بیسن کو اس کے 250 ملین باشندوں کے لیے اور بھی غیر متوقع اور خطرناک بنا دے گا بلکہ روزمرہ کے پانی کے بہاؤ میں مسلسل کٹاؤ کا بھی خطرہ ہے۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر