کيوبا ميں سفری آزادی کا قانون
14 جنوری 2013کيوبا کے ايک نئے قانون کے تحت اس کے شہری بلا اجازت بیرونی ممالک کا سفر کر سکتے ہيں ليکن انہيں سفری کاغذات دينے سے انکار بھی کيا جا سکتا ہے۔
کيوبا کے آسکر نے ڈوئچے ويلے کو انٹرويو ديتے ہوئے کہا کہ کيوبا کے قائد راؤل کاسترو نے عوام کو زيادہ سفری آزادياں دينے کا وعدہ کيا تھا ليکن نئے قانون سے تقريباً گيارہ ملين شہريوں کی سفری آزادياں اور محدود ہونے کا خدشہ ظاہر کيا جا رہا ہے۔
نئے قانون کے تحت کيوبا کے شہريوں کو آئندہ نہ تو سفری اجازت کی نشاندہی کرنے والے ’سفيد کارڈ‘ کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی بيرون ملک سے کسی دعوت نامے کی۔ 14 جنوری سے صرف پاسپورٹ اور متعلقہ ملک کا ويزہ درکار ہو گا۔
ليکن کيوبا کی کميونسٹ پارٹی کے اخبار ’Granma’ کاکہنا ہے کہ اس طرح دو انتظامی امور، يعنی بیرون ملک سے دعوت نامے اور سفيد کارڈ کو ايک دوسرے محکمے کے حوالے کر ديا گيا ہے، جو کہ پاسپورٹ جاری کرنے والا محکمہ ہے۔
کيوبا میں حکام پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر سکتے ہيں۔ اس کے ليے وہ ’تربيت يافتہ افرادی قوت‘ کو ملک ميں رکھنے يا عوامی مفاد کی دليل دے سکتے ہيں۔ ماہرين کا کہنا ہے کہ اس کی بہت سی تشريحات کی جا سکتی ہيں جن کو بنياد بنا کر پاسپورٹ دينے سے انکار کيا جا سکتا ہے۔ فری يونيورسٹی برلن کے لاطينی امريکا انسٹيٹيوٹ کی پروفيسر انگرڈ کوملس نے کہا: ’’اس ضابطے سے من مانی کرنے کی راہ کھل جاتی ہے۔ ميرے خيال ميں نئے قانون کے باوجود سياسی بنيادوں پر سفر نہ کرنے دينے کے واقعات ميں کمی نہيں آئے گی۔‘‘ مثال کے طور پر حکومت پر تنقيد کرنے والی بلاگر نوآنی سانچس کو پچھلے پانچ برسوں سے سفر کرنے کی اجازت نہيں دی جا رہی ہے۔ وہ نہيں سمجھتيں کہ نئے قانون سے کوئی تبديلی آئے گی۔ انہوں نے کہا: ’’ميرے دوست مجھ سے کہتے ہيں کہ ميں خود فريبی ميں نہ رہوں۔‘‘
ليکن جرمن کيوبن دوستی کی انجمن کے چيئر مين گيونتر پوہل نے کہا: ’’ميرے خيال ميں بلاگر خاتون کو نسبتاً جلد ہی سفر کی اجازت دے دی جائے گی کيونکہ وہ کسی اہم پيشے سے منسلک نہيں ہيں۔ جن اعلٰی شعبوں کے افراد کو بیرونی ممالک ميں سفر کرنے کی اجازت دينے سے انکار کيا جا سکتا ہے وہ ڈاکٹر اور ٹيچر ہيں۔‘‘
ليکن نئے قانون کے بعد پاسپورٹ کی فيس دگنی کر دی جائے گی۔ کيوبا کے رياستی خزانے کو اس رقم کی شديد ضرورت ہے۔
K.Wulf,sas/ia