کوئٹہ کے نواح میں نماز عید کے بعد فائرنگ، کم از کم دس افراد ہلاک
9 اگست 2013کوئٹہ پولیس کے مطابق مسلح افراد نے اس وقت فائرنگ کی جب لوگ نماز عید ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر آ رہے تھے۔ مقامی پولیس افسر بشیر احمد بروہی نے بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی اور اس واقعے میں تقریباً دس افراد زخمی ہیں۔ ان کے بقول چار افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھےجب کہ بقیہ ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ بروہی کے بقول سابق صوبائی وزیر علی مدد جاتک بھی فائرنگ کے وقت مسجد میں موجود تھے۔ شبہ ہے کہ حملہ آور انہی کو نشانہ بنانے آئے ہیں۔ علی مدد جاتک کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
پولیس افسر کے بقول اس بارے میں وہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ حملہ آور سیاستدان کو قتل کرنے آئے تھے یا یہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کا ایک واقعہ ہے۔ تاہم اس حوالے سے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ حکام نے تصدیق کی ہے کہ علی مدد جاتک بالکل خیریت سے ہیں۔
ایک جانب بلوچستان میں علیحدگی پسند کارروائیوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف خصوصاً کوئٹہ گزشتہ کئی مہینوں سے فرقہ ورانہ ہنگامی آرائی کی لپیٹ میں ہے۔ شہر میں اقلیت شیعہ برادری کو متعدد مرتبہ نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں نے ابھی حال ہی میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئٹہ سے پنجاب جانے والی بسوں پر حملے کیے تھے۔ اس دوران تین سیکورٹی اہلکاروں سمیت 13 مسافروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور متعدد کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کارروائی لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے قتل، اغواء اور بلوچ علاقوں میں ہونے والے آپریشن کا رد عمل ہے۔
ابھی تک کسی بھی گروپ نے آج مسجد پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی کوئٹہ میں ایک پولیس افسر کی نماز جنازہ کے موقع پر ہونے والے خودکش حملے میں 38 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں ڈی آئی جی آپریشن کوئٹہ فیاض سنبل اور ایس پی ہیڈ کوارٹر سمیت زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔