'کسی مذہب کے خلاف نہیں، یہ تو محض ایک نظم ہے،‘ بھارتی عدالت
11 فروری 2025بھارتی سپریم کورٹ نے شاعر اور رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک نظم پر ریاست گجرات کے ہائی کورٹ کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی 'ہوم اسٹیٹ‘ گجرات کے سرکاری وکیل سے کہا، ''براہ کرم نظم کو تو دیکھیں۔ (ہائی) کورٹ نے اس نظم کے معنی و مفہوم کی ستائش نہیں کی۔ یہ بالآخر یہ تو محض ایک نظم ہی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ شاعر اور کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے اردو کی ایک نظم ''اے خون کے پیاسو! بات سنو ، گر حق کی لڑائی ظلم سہی، ہم ظلم سے عشق نبھا دیں گے، گر شمع گریہ آتش ہے، ہر راہ میں شمع جلا دیں گے‘‘ انسٹاگرام پر پوسٹ کی تھی اور اسی پر گجرات کی حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا تھا۔
بھارت: دسویں جماعت کے نصاب سے فیض کے اشعار حذف
استغاثہ کے مطابق جام نگر میں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد عمران پرتاپ گڑھی نے انسٹاگرام پر پس منظر میں چلنے والی نظم ''اے خون کے پیاسو! بات سنو‘‘ کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ اپ لوڈ کیا تھا۔
گجرات پولیس نے ایک شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے تین جنوری 2025 کو ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا تھا، جس میں ''مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا اور مذہبی عقائد کی توہین کر کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا‘‘ جیسے الزامات شامل ہیں۔
فیض کی نظم کے لیے مناسب مقام اور وقت کیا ہے؟
بھارتی سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
عمران پرتاپ گڑھی نے گجرات ہائی کورٹ میں اس مقدمے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور استدعا کی تھی کہ یہ مقدمہ ختم کیا جائے، تاہم ہائی کورٹ نے اس کیس کو درست قرار دیتے ہوئے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔
اس کے بعد انہوں نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں پیر کے روز سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ تو محض ایک نظم ہے اور جس کے معنی اور مفہوم یہ ہیں کہ اس میں تشدد سے باز رہنے کی بات کی گئی ہے۔
فیض احمد فیض کی برسی پر نصیرالدین شاہ کی خصوصی پرفارمنس
سماعت کے دوران جج اجل بھویاں نے کہا، ''یہ کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ یہ نظم بالواسطہ کہتی ہے کہ چاہے کوئی تشدد میں ہی ملوث کیوں نہ ہو، ہم تشدد میں ملوث نہیں ہوں گے۔ یہی وہ پیغام ہے جو یہ نظم دیتی ہے۔ یہ کسی خاص کمیونٹی کے خلاف نہیں ہے۔‘‘
بینچ میں شامل ایک اور جج جسٹس اوکا نے ریاستی وکیل سے کہا، ''براہ کرم نظم پر اپنا ذہن لگائیں۔ آخر کار تخلیقی صلاحیت بھی تو اہم ہے۔‘‘
پرتاپ گڑھی کی طرف سے پیش ہونے والے سینیئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اس واقعے میں ہائی کورٹ کے ''جج نے قانون پر تشدد کیا ہے۔‘‘
اس پر ریاست گجرات کے وکیل نے جواب دینے کے لیے کچھ مہلت مانگی، جس سے اتفاق کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
فیض احمد فیض کا بھلا بھارتی شہریت ترمیمی قانون سے کیا تعلق؟
بھارتی سپریم کورٹ نے 21 جنوری کو گجرات کی ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا اور اس سلسلے میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر مزید کارروائی پر روک لگا دی تھی۔
گجرات کی ریاستی حکومت کا کیا کہنا تھا؟
استغاثہ کا موقف تھا، ''نظم کے الفاظ واضح طور پر ریاست کے خلاف اٹھنے والے غصے کی نشاندہی کرتے ہیں،‘‘ اور اس تناظر میں اس پر کارروائی ضروری ہے۔
ساتھ ہی ریاستی حکومت کا کہنا تھا، ''مذکورہ پوسٹ پر کمیونٹی کے مختلف افراد کی طرف سے جو ردعمل موصول ہوا، وہ یقینی طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا اثر بہت سنگین ہے اور یقینی طور پر سماجی ہم آہنگی کے لیے پریشان کن ہے۔‘‘
بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے مسلمان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئے؟
استغاثہ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ عمران پرتاپ گڑھی تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہے تھے۔
دوسری طرف عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ اس نظم کا سادہ سا مطالعہ بھی یہ واضح کر دیتا ہے کہ یہ ''محبت اور عدم تشدد کے پیغام‘‘ پر مبنی ہے۔