کرُس یورپ کا کم عمر ترین وزیر خارجہ
18 دسمبر 2013سیباستیان کرُس کا تعلق آسٹریا کی قدامت پسند پیپلز پارٹی ÖVP سے ہے۔ وزیر خارجہ بننے سے قبل وہ انضمام کے شعبے میں ریاستی سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ ویانا کے سفارتی حلقوں میں انہیں کم عمری کی وجہ سے کالج اسٹوڈنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم اس مختصر سیاسی تجربے کے باوجود ستمبر کے آخر میں ہونے والے ملکی انتخابات میں انہیں ان کے پارٹی سربراہ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ کرُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی پراعتماد ہیں اور روانی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فیس بک اور ٹویٹر پر بھی کافی متحرک ہیں۔ سماجی تقرییات میں وہ شوق سے شرکت کرتے ہیں۔ اِن مواقع پر وہ آداب تقریبات اور مناسب لباس کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ وہ پیچھے کی جانب بال بناتے ہیں اور یہی ان کی پہچان بھی ہے۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کرس ابھی اس عہدے کے لیے ناتجربہ کار ہیں اور سیاسی طور پر ابھی وہ اتنے بالغ نہیں ہوئے ہیں کہ عالمی سطح پر آسٹریا کی نمائندگی کر سکیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی زبانیں بولنے کی ان کی صلاحیت محدود ہے۔ تاہم کرس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انگریزی میں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ فرانسیسی زبان انہوں سے سیکھی تو ہے لیکن بہت عرصے سے بولی نہیں۔
دائیں بازو کے سیاستدان ہائنز کرسٹیان نے طنزیہ انداز میں کہا کہ سفارتی تجربے کے بغیر کرُس کے وزیر خارجہ بننے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے اور آسٹریا کی خارجہ پالیسی کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے۔ اس کے جواب میں کرُس کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ان کا سیاسی تجربہ بہت محدود ہے اور سفارتی معاملات بھی ان کے لیے نئے ہیں۔ لیکن ان کے پاس بہت زیادہ توانائی ہے، لگن اور چیزوں کو بہتر کرنے کا جذبہ ہے۔
کرُس کی تقرری سے امید ہے کہ خارجہ امور میں آسٹریا کی دقیانوسی ساکھ کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ سیاسی مشیر تھوماس ہوفر کے بقول سیباستیان کرُس سے آسٹریا کی سیاست کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آسٹریا کی خارجہ سیاست پہلے ہی کوئی بہت زیادہ فعال نہیں ہے اور اس وجہ سے کرُس کے پاس اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا یہ بہترین موقع ہے۔
سیباستیان کرُس کی والدہ استانی جبکہ والد ایک ٹیکنیشن ہیں۔ 2004ء میں انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے کچھ وقت فوج میں بھی گزارا۔ انہوں نے قانون کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی تاہم سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں یہ سلسلہ ادھورا چھوڑنا پڑا اور وہ قدامت پسند پیپلز پارٹی ’ ÖVP ‘ کے نوجوانوں کے شعبے کے سربراہ بن گئے۔