کئی کھلاڑیوں کا مستقبل، دورہ ءجنوبی افریقہ سے وابستہ
18 نومبر 2013پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ ء جنوبی افریقہ کی ابتداء بدھ سے جونسبرگ میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی بین اقوامی میچ سے کررہی ہے۔ پاکستانی کرکٹرز کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں حال ہی میں امارات میں ہونے والے سات محدود اوورز کے میچوں میں چھ بار منہ کی کھانا پڑی۔ ہوم سیریز میں پاکستانی بیٹنگ اس حد تک موم کی ناک ثابت ہوئی کہ احمد شہزاد اور صہیب مقصود کے علاوہ کوئی پاکستانی بیٹسمین پچاس کا ہندسہ عبور نہ کر سکا۔ خود محمد حفیظ جو ٹیسٹ ٹیم میں اپنی جگہ سے ہاتھ دھوچکے ہیں، ون ڈے سیریز میں بھی ٹیم پربوجھ بنے رہے اور دونوں ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچوں میں صفر پر آوٹ ہوئے۔
محمد حفیظ نےاعتراف کیا ہےکہ پاکستانی ٹیم مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرستاروں کی طرح کھلاڑیوں کے لیے بھی یہ ہوم سیریز ہارنا بہت اذیت ناک تھا تاہم کھیل اسی کا نام ہے کہ مشکل سے چھٹکارہ پایا جائے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم پہلے بھی جنوبی افریقہ میں کھیل چکے ہیں اور اب بھی وہاں ایک روزہ کرکٹ میں اچھے نتائج کے لیے پرامید ہیں۔‘‘
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کرکٹ کے لیے بے حد اہمیت اختیارکرگیا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے راشد کا کہنا تھا کہ کسی ٹیم کے لیے ہوم سیریز ہارنے کے بعد غیر ملکی دورہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ’’جیت ہار سے قطع نظر نئے اور پرانے کئی کھلاڑیوں کا مستقبل اگلے دس دن میں جنوبی افریقہ میں کارکردگی سے وابستہ ہو چکا ہے۔ کئی کرکٹرز کے کیرئیر کے لیے یہ دورہ کرو یا کوچ کرو کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور جو ذہنی طور پر مضبوط ہوگا وہی آگے ٹیم کا حصہ رہ سکے گا ۔‘‘
’خود غرضی ختم کرنا ہو گی‘
راشد لطیف کے بقول پاکستانی کھلاڑی مسلسل خود غرضی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’پاکستانی کھلاڑیوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، مگر مزا اس روز آئے گا، جب وہ ٹیم بن کر دکھائیں گے ۔ انہیں جیت کی پٹری پر واپس آنے کے لیےخود غرضی کی روش سے چھٹکارہ پانا ہو گا۔‘‘
عبدالرزاق، شاہد آفریدی اور محمد حفیظ جیسے مسلسل ناکام رہنے والے کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت کی بابت راشد کا کہنا تھا کہ حفیظ پاکستان کا سب سے لکی کرکٹرز ہے، ’’ میں نے اپنے کیرئیر میں کبھی ایسا کھلاڑی نہیں دیکھا جسے اتنے مسلسل مواقع دیے گئے ہوں۔ مگر یہ غلطی حفیظ کی نہیں، ہر کھلاڑی کھیلنا چاہتا ہے۔ اس کے ذمہ دار چیئرمین سلیکشن کمیٹی اور چیئرمین کرکٹ بورڈ ہیں۔‘‘
راشد کے مطابق پاکستانی ٹیم کو جنوبی افریقہ کے خلاف زخمی ہونے والے فاسٹ باؤلر محمد عرفان کی کمی پاور پلے میں شدت سے محسوس ہوگی۔ راشد کا کہنا تھا کہ عرفان کو مسلسل کھلانے پر ٹیم مینجمنٹ کو دوش نہیں دیا جا سکتا، ’’اس کا ان فٹ ہونا فزیو کی غلطی ہو سکتی ہے، ویسے بھی عرفان کا کیرئیر دوسال سے آگے نظر نہیں آرہا، اس لیے بھی اسے مسلسل میچ کھلانے کی ضرورت ہے۔‘‘
راشد لطیف سولہ برس پہلے اس پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے، جو اپنے ملک میں مسلسل ہارنے کے بعد جنوبی افریقہ جا کر ٹیسٹ سیریز برابر کھیلی تھی۔ تاہم راشد کہتے ہیں کہ اس وقت کے کھلاڑی خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال تھے۔ اب پیسے کی فراوانی ہے اور حکومتی مداخلت سے بھی معاملات بگڑ رہے ہیں اور موجودہ دور کے کرکٹرز میں اعتماد کی کمی ہے۔
جنوبی افریقہ کی سرزمین پر ماضی میں پاکستان کا ریکارڈ قابل رشک نہیں رہا۔ میزبانوں کے خلاف چھبیس میں سے صرف آٹھ ون ڈے اور ایک ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ میں کامیابی نے اس کے قدم چومے ہیں۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان پہلا ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ بدھ کی شام وانڈررزجونسبرگ کی مصنوعی روشنیوں میں کھیلا جائے گا۔