ڈیوس کپ
16 ستمبر 2013چیک جمہوریہ مردوں کے ٹیم مقابلوں میں عالمی چیمپئن شپ کی حیثیت رکھنے والے اس ٹورنامنٹ کے فائنل تک مسلسل آٹھویں مرتبہ پہنچی ہے۔ ڈیوس کپ کا فائنل پندرہ سے سترہ نومبر تک کھیلا جائے گا۔ یہ فائنل میچ سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں کھیلا جائے گا۔ دو سال قبل سربیا نے ڈیوس کپ کا فائنل جیتا تھا۔ گزشتہ برس کوارٹر فائنل کے مرحلے میں چیک جمہوریہ نے سربیا کو شکست دی تھی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ رواں برس کے فائنل میں سربیا گزشتہ برس کی شکست کا حساب برابر کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔
سربیا کی ٹیم کو دو عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کا سہارا حاصل ہے۔ ان میں ایک عالمی نمبر ایک نوواک جوکووچ اور دوسرے ژانکو ٹِپ سارے وِچ (Janko Tipsarevic) ہیں۔ ٹِپ سارے وِچ کی عالمی رینکنگ تیئیسویں ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ چیک جمہوریہ کی ٹیم میں زوردار سروس کی وجہ سے شہرت رکھنے والےعالمی نمبر پانچ ٹوماس بردیخ اور راڈک شٹیپانیک ہوں گے۔ شٹیپانک کی عالمی درجہ بندی میں پوزیشن اکسٹھویں ہے۔ سربیا کی ٹیم میں سن دوہزار سات میں جوکووچ اور ٹِپ سارے وِچ شامل تھے اور اس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ راڈک اور بردیخ پر مشتمل چیک جمہوریہ کی ٹیم بہت مضبوط ہے کیونکہ ان میں تال میل اور سوجھ بوجھ بہت ہے اور اسی باعث یہ گزشتہ پانچ برسوں سے ڈیوس کپ کے مقابلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ چیک جمہوریہ کی ٹینس ٹیم کے نان پلیئنگ کپتان ژاروسلاو ناوراٹل (Jaroslav Navratil) کا کہنا ہے کہ کسی اور ٹیم کے ہوم گراؤنڈ پر میچ کھیلنا ویسے ہی مشکل ہوتا ہے لیکن ان کی ٹیم بلغراد میں گزشتہ برس کی کامیابی کا اعادہ کرے گی کیونکہ ان کی ٹیم تجربہ کار ہے اور یہی تجربہ انہیں کسی طور خوفزدہ نہیں کر سکتا۔ فائنل میچ کے حوالے سے سربیا کے ژانکو ٹِپ سارے وِچ کا کہنا ہے کہ چیک جمہوریہ کی ٹیم ایک خطرناک ٹیم ہے اور بردیخ بہت ہی مضبوط کھلاڑی اس میں شامل ہے۔
سربیا نے ڈیوس کپ کے سیمی فائنل میں کینیڈا کی ٹیم کو ہرایا۔ اس سیمی فائنل میں ژانکو ٹِپ سارے وِچ کی پرفارمنس اہم تھی۔ یہ میچ دو دو گیمز کے ساتھ برابر تھا اور آخری میچ میں ٹِپ سارے وِچ نے کینیڈین کھلاڑی واسیک پوپسیل کو شکست دی۔ جوکووچ بھی سربیا کی ٹیم میں شامل تھے۔ دوسرے سیمی فائنل میں چیک جمہوریہ نے ارجنٹائن کو ہرایا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران جرمن ٹینس ٹیم نے برازیل کو ہرا کر ڈیوس کپ کے ورلڈ گروپ میں اپنے مقام کو برقرار رکھا۔ اگر جرمنی یہ میچ ہار جاتا تو اسے درجہ دوم میں جانا پڑتا۔ جرمن ٹیم سے ہارنے کے بعد اب برازیل کی ٹیم تنزلی کے بعد درجہ دوم میں داخل ہو گئی ہے۔